کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 182
’’اللہ کی قسم! مجھے پوری زندگی میں صرف اس (آزاد کردہ) غلام کے علاوہ کسی کے سامنے خفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنی طاعت کے ذریعے سے جس کو چاہتا ہے بلند کرتا ہے خواہ وہ مال و جائیداد اور نسب سے محروم حبشی غلام کیوں نہ ہو اور اپنی معصیت و نافرمانی کرنے والوں میں جس کو چاہتا ہے ذلیل و رسوا کرتا ہے خواہ وہ عالی نسب اور بڑے خاندان کا کیوں نہ ہو۔[1]
(ماخوذ از سنہرے حروف، عبدالمالک مجاہد)
٭٭٭
[1] عطاء بن ابی رباح مشہور تابعی ہیں ۔ یہ بنو فہر کے غلام تھے۔ ان کی ماں کا نام برکہ تھا۔ ان کی کنیت ابومحمد تھی۔ بچپن میں مکہ مکرمہ میں تعلیم حاصل کی اور وہیں پروان چڑھے۔ یہ کالے اور لنگڑے تھے۔ ناک چپٹی تھی۔ مگر علم و عمل میں بہت آگے تھے۔ بعد میں اندھے ہو گئے تھے۔ ۸۸ سال کی عمر میں ۱۱۵ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ امام ابوحنیفہ کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں عطاء سے زیادہ افضل آدمی نہیں دیکھا۔ ابن جریج کہا کرتے تھے: ’’کَانَ الْمَسْجِدُ فِرَاشَ عَطَائٍ عِشْرِیْنَ سَنَۃً وَ کَانَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَلَاۃً‘‘ ’’بیس سال تک عطاء کا بستر مسجد حرام ہی میں رہا، لوگوں میں سب سے اچھی نماز ان کی ہوا کرتی تھی۔‘‘ امام اوزاعی کہا کرتے تھے: ’’مَاتَ عَطَائٌ یَوْمَ مَاتَ وَ کَانَ أَرْضٰی أَہْلِ الْأَرْضِ عِنْدَ النَّاسِ‘‘ ’’جو دن مقدر تھا اس دن عطاء کا انتقال ہو گیا، (مرتے وقت تک) وہ لوگوں کی نظر میں اس روئے زمین پر سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت تھے۔‘‘ (دیکھیے: شذرات الذہب: ۱/۱۴۷۔۱۴۸، سیر أعلام النبلاء، البدایۃ و النہایۃ وغیرہ)