کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 181
علم کی عظمت ایک مرتبہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک اور اس کے بیٹوں کے درمیان حج کے کسی مسئلے میں شدید اختلاف ہو گیا تو خلیفہ نے کہا: مجھے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا پتا بتلاؤ۔ لوگ اسے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی مجلس میں لے گئے جو مسجد حرام کے اندر بیٹھے تھے اور ان کے اردگرد لوگوں کا ازدحام تھا، جیسے چاروں طرف سے بادل چھائے ہوئے ہوں ۔ خلیفہ نے صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ کر مسئلہ دریافت کرنا چاہا کیونکہ وہ خلیفہ تھا اور اس کا کوئی راستہ نہیں روک سکتا تھا۔ اتنے میں عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی: ( (یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ! خُذْ مَکَانَکَ وَ لَا تَتَقَدَّمِ النَّاسَ فَإِنَّ النَّاسَ سَبَقُوْکَ إِلٰی ہٰذَا الْمَکَانِ)) ’’اے امیر المومنین! اپنی ہی جگہ رہیں ، لوگوں سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ لوگ اس جگہ آپ سے پہلے آ چکے ہیں ۔‘‘ خلیفہ اپنی جگہ رک گیا، پھر جب اس کی باری آئی تو مسئلہ دریافت کیا اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے اس کا جواب بتلایا۔ خلیفہ جب واپس آیا تو اپنے لڑکوں سے کہا: اے میرے بیٹو! تم پر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور دین میں تفقہ پیدا کرو۔ ( (فَوَ اللّٰہِ! مَا ذُلِلْتُ فِیْ حَیَاتِیْ إِلَّا لِہٰذَا الْعَبْدِ))