کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 18
سوتیلی ماں ہم سب پر غالب آگئی اور ہمیں اور ہماری والدہ کو اپنے بچوں کے ساتھ مل کر گھر سے باہر نکال دیا اور ہمیں وراثت میں سے بھی کچھ نہیں ملا، کیونکہ ساری جائیداد (جو کروڑوں کی تھی) وہ میرے سوتیلے بھائی کے نام تھی، لیکن اللہ کی ذات کتنی برکت والی ہے جو (زندگی کو موت اور موت کو زندگی دیتی ہے) میرے والد کے بیٹے انتہائی مخلص اور اچھے تھے۔ جب انہیں اپنی ماں کی حرکتوں کا پتا چلا تو ہم لوگوں کے پاس آئے اور میری والدہ کا سر اور ہاتھ چوما اور کہنے لگے: خالہ آپ اور آپ کے بچوں کی حفاظت و کفالت اور دیکھ بھال میری ذمہ داری ہے۔ ہمیں تسلیاں دیں ، ہمت اور حوصلہ دیا اور ہماری والدہ کو بیس ہزار ریال دیتے ہوئے کہا کہ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں اور باقی ان شاء اللہ آپ تک جلد پہنچے گا۔ وہ بہن کہتی ہے کہ میرے اس بھائی نے ۹ لاکھ کا بنگلہ میری امی کے نام سے خریدا اور ہم سب کے لیے چار عمارتیں خرید کر ہم سب کے نام کر دیں اور ہمارے لیے ہر مہینہ خرچہ مقرر کیا اور وہ تمام چیزیں جس کی ہم ضرورت محسوس کرتے وہ فوراً پوری کرتے اور جب میری سوتیلی ماں کو پتا چلا تو اس نے اپنے بیٹے کو برا بھلا کہا اور اپنے بیٹے گھر سے نکال دیا۔ یہ ایک مثال ہے جو اپنی سوتیلی ماؤں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں ان کا حق دیتے ہیں ۔ دوسرا واقعہ اس بہن کا ہے جو اپنے آپ کو سارہ کہتی ہے۔ سارہ اپنی سوتیلی ماں کے بارے میں بیان کرتی ہے جو پہلے واقعہ کا بالکل برعکس ہے، سارہ لکھتی ہے کہ میں لکھ رہی ہوں لیکن میرے آنسو میرے قلم کو روک رہے ہیں ۔ کہتی ہے کہ میری کم سنی میں میری والدہ کا انتقال ہوگیا تو میرے والد نے ہم بھائی بہنوں کی حفاظت اور تربیت کی خاطر دوسری شادی کر لی۔ کیونکہ ہم سب بہت چھوٹے تھے، پھر ہم سب نے شادی کے پہلے سال اپنے والد کی بیوی کو بہت زیادہ پریشان کیا اور بہت تکلیفیں دیں ۔ خاص طور سے میرے بڑے بھائی نے تو مارنے اور گھر سے نکال دینے کی دھمکی بھی دی۔ بلکہ اللہ ہم سب کو معاف کرے باتیں اس سے بھی بڑھ کر ہوئیں ، دراصل وہ خوبصورت اور دین دار ہونے کے باوجود بھی تین آدمیوں سے طلاق شدہ تھیں ، کیونکہ ماں بننے کی صلاحیت ان میں نہیں تھی، اس سب کے باوجود سوائے