کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 152
نے ہی پڑھائی۔ دورانِ نماز آپ اتنا روئے کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی اور آپ کی آہ و زاری سے مقتدیوں کے لیے آپ کی آواز پہچاننا مشکل ہو گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو نمازیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ( (بُؤْسًا لِّعُمَرَ! کَمْ قَتْلَ مِنْ أَوْلَادِ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) ’’عمر کی تباہی ہو! نہ معلوم مسلمانوں کے کتنے ہی بچوں کو اس نے مار ڈالا۔‘‘ پھر آپ نے اپنے منادی کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا: ( (لَا تَعْجِلُوْا صِبْیَانَکُمْ عَنِ الْفِطَامِ، فَاِنَّا نَفْرِضُ لِکُلِّ مَوْلُوْدٍ فِی الْاِسْلَامِ۔)) ’’تم لوگ اپنے شیر خوار بچوں کا دودھ چھڑانے میں جلدی سے کام مت لو، کیونکہ ہم ہر مسلمان نو مولود کے لیے وظیفہ مقرر کر رہے ہیں ۔‘‘ چنانچہ اس حکم کو پورے ملک میں نافذ کر دیا گیا اور ہر جگہ منادی بھیج کر اس حکم سے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا گیا۔ [1] ٭٭٭
[1] یہ واقعہ تاریخ کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ میں نے حافظ ابن کثیر کی مایہ ناز تاریخ کی کتاب ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ سے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔