کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 15
اپنے ننھے ہاتھوں کو اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرنے لگی اور کہنے لگی: امی جان! آج جمعہ کا دن ہے اور یہ دعا کی قبولیت کا وقت ہے، جیسا کہ میری ٹیچرنورہ نے بتایا ہے۔ اپنی ننھی بیٹی کے اس حکیمانہ تصرفات کو دیکھ کر میرا دل دہل گیا اور تھکاوٹ کی شدت کی وجہ سے میں کمرے میں جا کر سو گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری بیٹی سورئہ فاتحہ اور آیت الکرسی پڑھ کر میرے اوپر پھونک رہی تھی۔ ایسے حالات میں مجھے بہت سکون کا احساس ہوا، اس سے پہلے جب میں شدت کرب کی وجہ سے نہیں سو پاتی تو اپنی بیٹی سے کہتی کہ وہ مجھ پر سورئہ فاتحہ اور معوذتین کا دم کر دو۔ ایک مہینے کے علاج کے بعد جب میں اسپتال گئی تو بتایا گیا کہ اب مجھے علاج کی ضرورت نہیں ہے اور میری حالت دن بدن بہتر ہو رہی ہے۔ یہ سنتے ہی میری آنکھیں خوشی سے بھر آئیں ، جبکہ ڈاکٹر نے میری حرکتوں پر ڈانٹا اور سمجھایا بھی کہ اللہ تعالیٰ پر قوی ایمان کے ساتھ اس پر مکمل اعتماد بھی ضروری ہے اور شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس دن میں خوشی خوشی گھر لوٹی۔ اب میری خوشی میری بیٹی لمیاء سے چھپ نہ سکی، وہ گاڑی میں میرے ساتھ گفتگو کے دوران کہنے لگی: امی جان! ڈاکٹر تو کچھ بھی نہیں جانتا بلکہ ساری چیزوں کا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، میں نے پوچھا: وہ کیسے؟ کہنے لگی: میں نے ابوجان کو اپنے دوست کے ساتھ موبائل پر گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اس مہینے کی ساری آمدنی یتیم خانے میں دے دو، شاید اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ ام لمیاء کو شفا دے دے۔ اس خبر سے میری آنکھیں بھر آئیں ، کیونکہ ہماری صرف ایک مہینے کی آمدنی دو لاکھ ریال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اب میری حالت دن بدن بہتر ہو رہی ہے، جس میں اللہ کی رحمت کے بعد میری بیٹی لمیاء کی خود اعتمادی اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ بھی شامل ہے، جو مجھے ہمیشہ اللہ کی یاد دلاتی رہتی تھی کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کے ساتھ میں اپنے شوہر اور اس کے صدقہ وخیرات کو بھی نہیں بھول سکتی جو ہماری تکلیفوں کو دور کرنے کا اہم سبب بنے۔