کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 14
سر پر ہاتھ پھیرا تو بہت سارے بال سر سے گر کر بکھر گئے۔ میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ بیٹا ان بالوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اتنا سنتے ہی وہ رونے لگی اور اپنے ہاتھوں سے آنسو پوچھتے ہوئے کہنے لگی امی جان! یہ نیکیاں ہیں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر گرے ہوئے بالوں کو رومال میں جمع کرنے لگی۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل بہت رویا اور اپنی بیٹی کو سینے سے چمٹا کر اللہ تعالیٰ سے بہت ساری دعائیں کیں کہ اے میرے رب! مجھے اپنی اسی بچی کی خاطر شفا دے کر میری عمر لمبی کر دے ورنہ میں اس مہلک بیماری کے سبب تکلیفوں کو برداشت کرتے کرتے مرجاؤں گی۔ (غور کریں اس کے جملوں پر اس کی سچائی اور ایمان ویقین پر، وہ بھی ان تکلیفوں اور غموں کے ساتھ جن کا وہ سامنا کر رہی ہے)
عبیر کہتی ہے کہ میں نے دوسرے دن ہی اپنے شوہر سے استرا منگایا اور کسی کو بتائے بغیر سر کے سارے بالوں کو مونڈ دیا اور اس طرح ان کے ٹوٹ کر گھر میں ادھر ادھر بکھرنے کی زحمت سے راحت محسوس کی اور جب گھر میں ہی سر کو آنچل سے چھپا کر رکھنے لگی تو میری بیٹی لمیاء کو شک ہوگیا۔ چنانچہ ایک دن آنچل (دوپٹہ) کو ہٹا کر کہنے لگی: امی جان! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ بھول گئیں کہ میں اپنے رب سے آپ کی شفا و تندرستی اور بال نہ گرنے کی دعا مانگ رہی ہوں ، کیا آپ نہیں جانتیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے پسند کرتا ہے، وہ میری نیک خواہشوں اور میری دعاؤں کو کبھی نہیں ٹھکرائے گا اور وہ آپ کو پہلے سے بھی بہتر اور خوبصورت بال دے گا۔ امی جان ایک مہینے سے میں نے اسکول میں ناشتہ نہیں کیا، بلکہ ناشتے کے پیسوں کو اسکول میں کام کرنے والی غریب عورتوں میں تقسیم کر کے ان سے آپ کے لیے شفائے عاجل کی درخواست کرواتی ہوں ، اتنا ہی نہیں بلکہ اپنی دوست منال سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی نیک دادی سے آپ کے لیے شفا کی دعا کروا دے۔ امی جان میں اللہ کو چاہتی ہوں اور وہ مجھے چاہتا ہے، وہ ہمیں کبھی نامراد نہیں کرے گا اور جلد ہی آپ کو شفا دے گا۔
عبیر کہتی ہے کہ جس اعتماد کے ساتھ میری بیٹی بات کر رہی تھی، میں اپنے آپ پر ضبط نہ رکھ سکی اور اسے اپنی آغوش میں لے کر رو پڑی، پھر وہ مجھے اپنے گھٹنوں پر لٹا کر قبلہ رخ ہو کر