کتاب: پرسکون گھر - صفحہ 138
کی دکان پر تقریباً ۲۵ منٹ تک ٹھہرا تھا۔ اس دوران اس میں دوسرے سامان کے لیے تو کوئی گاہک نہیں آیا، البتہ سگریٹ کے لیے اس دوران ۵ نوجوان دکان میں داخل ہوئے اور سگریٹ خریدی۔ اس عنوان کے لکھنے والے دن (مورخہ ۲۰۰۵؍ ۱۱؍ ۱۲) فیملی ویزہ نکالنے کے لیے مجھے وزارت داخلہ جانا ہوا۔ وہاں قطار میں تفتیشی کارروائی کے لیے کھڑا تھا کہ اندر کے ایک کمپیوٹرائزڈ بورڈ پر نگاہ پڑی جس پر بار بار عربی زبان میں لکھا ہوا آرہا تھا جس کا مفہوم تھا: ’’میرے ہم وطنو! سگریٹ اس زمانے کا ہولناک کینسر ہے، اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔‘‘ اور جونہی وہاں سے نکلا، تو دیکھا کہ وزارت داخلہ کے ارد گرد متعین کئی سیکورٹی گارڈ سگریٹ پی رہے تھے۔ جگہ جگہ اس قسم کے بورڈ اور جگہ جگہ ان بورڈوں پر لکھی گئی باتوں کے خلاف عمل سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی بیماری کس طرح جڑ پکڑ چکی ہے۔[1] بات نکلی تھی غرفہ تجاریہ کے پیچھے والے بورڈ سے، الحمد للہ سعودی عرب کی خواتین نے
[1] مورخہ ۲۰۰۶/ ۴۰/ ۲۶ کو رات ۹ بجے کلکتہ کا میرا ایک دوست لال بتی جلنے کے باوجود اپنی گاڑی سے سگنل کراس کر گیا۔ ٹریفک پولیس نے اسے جیل میں ڈال دیا۔ میرے پاس اس کا فون آیا کہ کھانا لے کر جیل آؤ۔ دوبارہ اس نے فون کیا کہ رضوان! معاف کرنا، کھانے کے ساتھ Roothsmen سگریٹ کا ایک پاکٹ بھی ساتھ میں لیتے آنا۔ کیونکہ میرے ساتھ جیل میں ایک آدمی ہے جو سگریٹ کے لیے بہت ہی پریشان ہے، اسی نے یہ فرمائش کی ہے۔ چونکہ میرا ساتھی میرے بارے میں واقف تھا کہ میں سگریٹ نوشی کا کس قدر مخالف ہوں ، اس لیے اس نے بہت منت سماجت کی۔ میں نے اس سے کہا: اپنے جیل کے ساتھی سے کہہ دو کہ اگر کھانے پینے یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے منگو الے، یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ میں ایک حرام کام میں اس کا تعاون کروں ۔ میرے ساتھی نے بہت منت کی مگر میں نے سگریٹ نہیں خریدی۔ اس واقعے سے بھی اندازہ لگائیں کہ ہماری امت کے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی عادت کس قدر مضبوط ہو گئی ہے کہ وہ ہر مقام اور موقع پر اس کی طلب میں بے قرار رہتے ہیں ، خواہ جیل میں ہی کیوں نہ ہوں ۔