کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 431
میت کو قبر میں دائیں پہلو پر رکھا جائے اور اس کا چہرہ جانب قبلہ ہو اور اس کو قبر میں رکھنے والے رکھتے وقت یہ کہیں""بسم اللّٰه وعليٰ ملة رسول اللّٰه" صلی اللہ علیہ وسلم،اور کفن کے رابط کھول دیں۔
عورت کی میت قبر میں رکھتے وقت مستحب یہ ہے کہ اس پر کپڑا تان لیا جائے۔بیہقی میں حدیث ہے کہ حارث الاعور رضی اللہ عنہ کی قبر پر جب کپڑا تانا گیا تو سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو کپڑا تاننے سے روکا اور فرمایا کہ یہ مرد ہے(لہٰذا نہیں تاننا چاہیے)
اس حدیث کے بارے امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں:
(وهذا اسناد صحيح وان كان موقوفاً)
میت خواہ مرد کی ہو یا عورت کی اس کو قبر مین مرد ہی اتاریں۔عورتیں نہیں اتار سکتیں۔البتہ اگر میت عورت کی ہوتو اس کے محارم (قریبی رشتہ دار)اس کو قبر میں اتاریں تو بہتر ہے۔اور جو لگ دفن کے وقت موجود ہوں ان کے لیے مستحب ہے کہ وہ تین لپ مٹی کے قبر میں میت کے سر کی طرف سے ڈالیں۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
(رواہ ابن ماجہ،نیل الاوطار:1468)
دفن سے فراغت کے بعد میت کے لیے استغفار کرنا مستحب ہے اور اس کی تثبیت(ثابت قدمی) کے لیے دعا کرنا کہ وہ منکر نکیر کے سوالات کے درست جواب دیں،بھی مستحب ہے۔چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہوکر فرماتے:
(استغفروا لا خيكم وسلو االلّٰه له التثبيت فانه الآن يسأل)
" اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو اور اللہ سے اس کی تثبیت کا سوال کرو کیونکہ اب اس کا سوال وجواب ہورہا ہے۔"
اور سنت یہ ہے کہ قبر زمین سے ایک بالشت اونچی ہو(زیادہ اونچی نہ ہو)تاکہ پتہ چلے کہ یہ قبر ہے،اس کو نہ روندا جائے نہ اس پر بیٹھا جائے یعنی قبر کا احترام واکرام کیا جائے۔پتھر یا لکڑی کی کوئی نشانی وغیرہ قبر پر رکھنی تاکہ پتہ چلے کہ یہ قبر ہے(یا فلان کی قبر ہے) جائز ہے۔(فقہ السنہ:1/550)