کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 429
دوسرے جب جنازہ لے جایا جارہا ہو،اس وقت جلدی چلنا۔بعض لوگ کسی شخص کے مرنے کے بعد کئی دنوں کا اس کی نعش رکھ چھوڑتے ہیں تاکہ اس کا فلاں رشتہ دار یا عزیز آجائے۔ایسا کرنا اچھا نہیں ہے بلکہ مرنے والے کا فوری طور پر کفن دفن کا انتظام کرنا چاہیے۔چنانچہ حدیث میں ہے:
" جب جنازہ کو اٹھا لیا جاتا ہے تو میت اگر صالح اور نیک ہوتو وہ کہتی ہے کہ مجھے جلدی لے چلو، مجھے جلدی لے چلو۔ اگر غیر صالح اور گناہوں سے کنارہ نہ کرنے والی ہو تو وہ کہتی ہے:" افسوس! تم مجھے کہا لے جارہے ہو؟"اور اس کی آواز کو سوائے انسانوں کے اور سب سنتے ہیں۔انسان اگر سن لے تو اس کی موت واقع ہوجائے۔"
(بخاری:3/181،رقم:1314، 1316،نسائی، باب السرعتہ بالجنازۃ، مسند احمد:3/41)
باقی رہا جنازہ کو تیزی کے ساتھ قبر کی طرف لے جانا تو نسائی کی حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ پر ان کے اعزاء واقرباء نہایت آہستگی کے ساتھ چل رہے تھے۔راستہ میں انہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے جو کہ ایک خچر پر سوار چلے جارہے تھے۔ انہوں نے جب ان کا جنازہ لے جانے والوں کو دیکھا تو سواری سے اتر کر ان کو کوڑا لے کر چڑھ دوڑے اور فرمایا:"تیز چلو،کیونکہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایسا ہی دیکھا ہے۔"
(نسائی، باب السرعتہ بالجنازۃ:14/42، مسند احمد:5/36، 38)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازہ کے ساتھ چلنے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:" رفتار بھاگنے سے کم ہو،اور اگر وہ نیک آدمی ہے تو اسے بھلائی تک پہنچایا جائے،اور اگر اس کے علاوہ ہے تو جہنم والوں کے لیے دوری ہے۔"(ابو داؤد:3/206، رقم:3184، ترمذی:3/332، رقم:1011)
حافظ ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:" اہل علم کی جماعت کا فیصلہ یہ ہے کہ عادی رفتار سے تھوڑا ساتیز چلنا چاہیے،اور تیزی ان کے نزدیک سستی سے زیادہ ناپسندیدہ ہے،لیکن ایسی تیزی ان کے نزدیک مکروہ ہے جو جنازہ کے ساتھ چلنے والے ضعیف اور کمزور