کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 415
سیدنا ہارون بن ابی داؤد بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:"اے ابو حمزہ!آپ کی رہائش دور ہے اور آپ کی عیادت میں ہمیں کچھ تکلیف اور زحمت ہوتی ہے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ"جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ رحمت الٰہی میں ڈوب جاتا ہے، اور جب وہ (عیادت کے لئے)مریض کے پاس بیٹھتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے۔"فرماتے ہیں:"میں نے عرض کیا!" یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو(اجروثواب) اس تندرست آدمی کے لئے ہے جو مریض کی عیادت کرتا ہے۔"مریض کےلئے کیا ہے؟" فرمایا: " اس کے گناہ جھڑجاتے ہیں۔" (رواہ احمد فی مسندہ:3/174، ورجالہ ثقات، مجمع الزوائد:2/297،وللحدیث طرق اخریٰ عند الطبرانی فی الصغیر والاوسط) اسلامی معاشرہ میں جب کوئی شخص بیمار پڑتا ہے تو کرب وتکلیف کے لمحات میں اس کو تنہائی اور اکیلے پن کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ اس کے ارد گرد تیماداری اور عیادت کرنے والوں کا ایک ہجوم اور ان کی دعائیں اسے ڈھانپے رہتی ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں انسانی ترقی ہے کہ ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کیلئے خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات موجزن ہوں،خاص کر اس وقت جب وہ حزن وکرب اور بیماری میں مبتلا ہو۔ یورپ اور امریکہ میں جب کوئی شخص بیمار پڑتا ہے تو اس کو کسی ہسپتال میں داخل کرادیا جاتا ہے اور سوائے ڈاکٹروں اور نرسوں کے اس کی عیادت کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ اس سے تسلی بخش گفتگو،محبت آمیز لمس، فرحت آگین مسکراہٹ، پر خلوص دعا اور جذباتی ہم آہنگی کرنے والا اور کوئی نہیں ہوتا اور وہ بستر مرض پر موت کے انتظار میں یا بیماری سے شفا کے انتظار میں اکیلا پڑا رہتا ہے۔ مریض کی عیادت سے اس مریض پر اور اس کے اہل خانہ پر بڑا گہرا نفسیاتی اثر پڑتا ہے جس سے اس کو جلد شفایاب ہونے کی امید بندھتی ہے اور اس کے اہل خانہ کو ایک گونا تسلی اور اطمینان ہوتا ہے کہ مریض جلد شفایاب ہوجائے گا۔اسی وجہ سے سرکار دو