کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 403
اللہ!جس شخص کے پاس صدقہ کرنے کو کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟"فرمایا:"اپنے ہاتھ سے کمائے،خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔"صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا:اگر اس کی بھی طاقت اور استطاعت نہ ہو؟"فرمایا:" حاجت مند اور مصیبت زدہ اشخاص کی مدد کرے۔" صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا:"اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو" فرمایا:"نیکی کرے اور برائی سے رکارہے۔یہ بھی صدقہ ہے۔"
(بخاری، باب کل معروف صدقہ، رقم:6022)
اسلام نے یہ نہیں کہا کہ سب مال اللہ کی راہ میں خرچ کردو بلکہ فرمایا کہ ضرورت سے زائد مال خرچ کرو اور بقدر رزق اور روزی روک لینے والوں کو ملامت نہیں کی بلکہ ان کے لئے یہ چیز بہتر قراردی کہ وہ اپنی ضرورتیں بذات خود پوری کریں۔ چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
"اے ابن آدم! اگر تو اپنا زائد مال خرچ کرے گا تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے۔اگر تو اسے بچا بچا کر رکھے گا تو یہ تیرے لئے برا ہے۔بقدر ضرورت روکنے میں کوئی ملامت نہیں۔خرچ کی ابتداء اس سے کرو جس کی کفالت کرتے ہو۔اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔"
(مسلم، باب أن الید العلیا.....، رقم:1036)
ایک اور حدیث میں مال کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی اور اس شبہ کا ازالہ فرمایا کہ صدقہ دینے سے مال کم ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مانقص مال عبد من صدقة)(مسلم، رقم:2588)
"کسی بندے کا مال صدقہ دینے سے کم نہیں ہوتا۔"
مساکین وفقراء سے محبت کرنے کی تلقین کی اور بغض رکھنے سے منع فرمایا۔
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دعا فرمایا کرتے تھے۔
(اللّٰهم اني اسئلك فعل الخيرات،وترك المنكرات،وحب المساكين)
"اے اللہ!میں تجھ سے نیکیوں کے کرنےکا سوال کرتا ہوں، اور