کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 401
کہ وہ شدید تنگ دستی اور بدحالی میں مبتلا ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(ليس المسكين الذي لامال له، ولكن المسكين الذي لا مكسب له)
"یعنی مسکین صرف وہ نہیں جس کے پاس مال نہیں بلکہ مسکین وہ بھی ہے جس کے پاس کمائی کا کوئی ذریعہ نہیں۔"
مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس مال نہیں ہے وہ اگرچہ مسکین ہے لیکن جس شخص کے پاس مال بھی نہیں اور کمائی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں،اس کی مسکنت پہلے سے شدید تر ہے۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ جس کے پاس مال نہیں اور وہ کمائی کا کوئی ذریعہ رکھتا ہے تو وہ فقیر ہے اور جس کے پاس نہ تو مال ہے اور نہ ہی کوئی ذریعہ کسب،تو وہ مسکین ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکین کے بارہ میں فرمایا:
"مسکین وہ نہیں ہے جولوگوں کے گھروں کے چکر لگائے اور لقمہ دو لقمہ اور کھجور دو کھجوریں اسے واپس لوٹا دیں،بلکہ مسکین تو وہ ہے جو اتنی دولت بھی نہ پائے جو اسے لوگوں سے بے نیاز کردے۔ اس کی غربت کی بابت احساس بھی نہ کیا جائے کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ ہو خود دست سوال دراز کئے کھڑا ہوکہ لوگوں سے مانگے۔"(بخاری:3/269،280، 8/152، مسلم، رقم:1039)
اسلام نے سب سے پہلے تو ایک مومن کو بخل سے منع کیا اور اس کو بتایا کہ تیرے پاس جو مال ہے اس کو تونے جمع نہیں کرنا بلکہ اس کو فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا ہے۔ اس نظریہ کوکئی مثالوں سے ذہنوں میں اتارنے کی کوشش کی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا:" تم میں سے کسی شخص کو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پسند ہے؟"صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:"یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص کو صرف اپنا مال محبوب ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور وارث کا مال وہ ہے جو اس نے پیچھے چھوڑ دیا۔"
(بخاری، کتاب الرقاق، رقم:6442)