کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 395
"دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے کافی ہے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کیلئے کافی ہے۔"
(بخاری، رقم:5392، مسلم، رقم:2058 باب فضیلتہ المواساۃ)
آج مغرب میں کھانا تو بہت بڑی بات ہے اگر چائے پیتے ہوئے کوئی مہمان آجائے تو اس کو چائے تک نہیں پوچھی جاتی،لیکن ایک مسلمان اگر زیادہ مہمان بھی آجائیں تو وہ پریشان نہیں ہوتا جیسا کہ مغرب کا انسان پریشان ہوتا ہے۔مسلمان ہر مہمان کو اپنے کھانے میں شریک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کھانے میں برکت بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ایک آدمی کا کھانا دوتین آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اگر نہ بھی کافی ہو تو وہ خود بھوکا رہ جائے گا لیکن مہمان کو ضرور کھلائے گا۔
اسلام میں مہمان بھی اپنے میزبان کے حالات کا خیال رکھتا ہے اور وہ زیادہ دن اس کے گھر میں پڑا نہیں رہتا کہ اس کے رہنے سے میزبان کو پریشانی اور دشواری لاحق ہو،یہاں تک کہ بعض اوقات معاملہ تنگی،دل برداشتگی اور نفرت وکراہت تک پہنچ جاتا ہے،بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے یہ جانتا ہے کہ آپ نے ایسا کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اسے اسلام کی روح کے منافی فرمایا ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
:کسی مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کا مہمان اتنا ٹھہرے کہ اسے گنہ گار کردے۔"صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا:"یا رسول اللہ!وہ اسے گنہ گار کیسے کردے گا؟" فرمایا:"اس کے یہاں ٹھہرے گا اور اس کی مہمان داری کے لئے میزبان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔"
(مسلم ،رقم:1727، باب الضیافتہ)
اور بخاری کی حدیث میں ہے کہ
(ولا يحل له ان يثوي عنده حتي يهرجه)
(بخاری ، رقم:6135،باب اکرام الضیف)
"کسی مہمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے ہاں اتنا