کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 394
رکھتے ہو؟انہوں نے عرض کی!بے شک،فرمایا ایسا نہ کرو۔نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی،روزہ بھی رکھو اور بے روزہ بھی رہو کیوں کہ تمہارے اوپر تمہارے جسم کا حق ہے،تمہاری آنکھ کا حق ہے،تمہارے مہمانوں کا حق ہے اور تمہاری بیوی کا حق ہے۔ہر حق دار کو اس کا حق دو۔
(بخاری مع عمدۃ القاری:22/173)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یا رسول اللہ!آپ ہمیں(جہاد وتبلیغ وغیرہ کے لئے) بھیجتے ہیں اور ہم کسی قوم پر جا کر اترتے ہیں۔جو مہمان نوازی نہیں کرتے،تو آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟پس ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کسی قوم پر اترو، اور وہ تمہارے لئے وہ حکم دیں جو مہمان کے لئے مناسب ہے تو قبول کرلو،لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے وہ حق لے لو جو ان پر مناسب ہے۔
(عمدۃ القاری:22/174، مسلم:12، 32، ابو داؤد، رقم:3749)
ابی کریمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مہمان کی شب بسری ہر مسلمان کا حق ہے البتہ کوئی مہمان اگر صبح آئے وہ اس پر قرض ہے، چاہے تو ادا کر ے چاہے تو ترک کرے۔"(ابو داؤد، رقم:3747)
بعض لوگ مہمان کے آنے سے تنگ دل ہوجاتے ہیں اور اس پر اپنے دروازے بند کرلیتے ہیں ان لوگوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لاخير فيمن لايضيف)(مسند احمد:4/155)
"جو شخص مہمان نوازی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔"
مہمان نوازی اسلام کے عمدہ اخلاق میں سے ہےلہٰذا کوئی مسلمان مہمان نوازی میں بخل نہیں کرسکتا خواہ وہ معاشی لحاظ سے کمزور ہی کیوں نہ ہو۔اسلام نے بتایا کہ دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لئے کافی ہے لہٰذا اگر کوئی مہمان اچانک آجائے پھر بھی پریشان نہیں ہونا چاہئے۔کیوں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(طعام الاثنين كافي الثلاثة وطعام الثلاثة كافي الاربعة)