کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 393
اس انصاری کا نام ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے تو سیدہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے جو آپ کی صفات بیان فرمائیں،ان میں ایک یہ تھی"تقرئ الضيف"آپ مہمان نوازی کرتے ہیں۔(بخاری، رقم:10، مختصر تفسیر ابن کثیر:3/656)
ایک مسلمان مہمان کی آمد سے خوش ہوتا ہے اور اس کےاعزاز واکرام کی طرف لپکتا ہے کیونکہ اکرام ضعیف ایمان کی علامات میں سے ہے،سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من كان يؤمن باللّٰه واليوم والآخر فليكرم ضيفه)
(بخاری، رقم:6018،مسلم، رقم:48)
"جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی تکریم اور اس کی عزت کرے۔"
عزت واحترام مہمان کا اس وجہ سے ہے کہ اس نے میزبان کو مہمان داری جو کہ ایک نیک عمل ہے، کا موقع دیا۔اس سے اس کا رب خوش ہوگا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے،وہ اپنے مہمان کا اکرام اور اس کی عزت کرے اور اس کا انعام دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا:"یا رسول اللہ! اس کا انعام کیا ہے؟"ایک رات اس کی پرتکلف مہمانی کرے۔مہمان نوازی تین روز تک ہے اور اس سے زائد صدقہ ہے۔اس کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ اسے تنگی میں ڈال رہے۔(عمدۃ القاری شرح بخاری:22/174، مسلم مع شرح نووی:12/30، مؤطا امام مالک:2/929، ابو داؤد:4/127، ترمذی4/345، ابن ماجہ:2/121)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی کہ تم رات بھر نماز پرھتے ہو اور دن کو روزہ