کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 386
(الجار حق بسقبه)
"پڑوسی قریبی ہونے کے ناطے شفعہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔"
(رواہ البخاری فی کتاب الشفعہ، رقم:2258)
ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"پڑوسی شفعہ کرنے کا سب سے زیادہ حق دار ہے اگر وہ موجود نہ ہوتو اس کا انتظار کیا جائے جب کہ دونوں کا راستہ بھی ایک ہو۔(ترمذی، رقم:1369)
حسن سلوک میں قریبی پڑوسی کو مقدم رکھنا چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایاتھا کہ"یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے دو پڑوسی ہیں میں ان میں سے کس کو ہدیہ کروں؟ آپ نے فرمایا۔
(اليٰ اقربهما منك باباً) (بخاری، رقم:2595)
"دونوں میں سے اس سے جس کا دروازہ تیرے قریب ہو۔،
اس بارہ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
" آدمی حسن سلوک میں دور کے پڑوسی کو قریب کے پڑوسی پر مقدم نہ کرے بلکہ قریب کے پڑوسی کو دور کے پڑوسی پر مقدم رکھے۔"(الادب المفرد:110)
اس ترتیب کا مطلب یہ بھی نہیں کہ جو مسلمان پڑوسی اس کے گھر سے دور رہتے ہیں ان سے بالکل اعراض برت لیا جائے۔قریبی پڑوسی کو مقدم کرنے کی ترتیب صرف ترتیبی ترتیب ہے۔جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریبی پڑوسی کی نفسیات کی رعایت کی ہے،ورنہ پڑوس کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ایک مرتبہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا:" یا رسول اللہ! میں بنی فلاں کے محلّہ میں رہنے لگا ہوں، وہاں جس شخص کا گھر میرے گھر کے سب سے زیادہ قریب ہے وہی مجھے سب سے زیادہ ایذا اور تکلیف دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔وہ مسجد نبوی میں آئے اور مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور سے اعلان کیا۔