کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 385
"وہ شخص مومن نہیں جو خود تو سیر ہوا مگر اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔"
شریعت نے پڑوسی کے ساتھ نہایت نرمی سے معاملات کرنے کی تلقین کی۔
اس کے پڑوسی کو اس کے گھر سے اگر کوئی نفع پہنچ رہا ہوتو اسے روکنا نہیں چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لايمنع جار جاره أن يغرز خشبة في جاره)
(بخاری، رقم:10/5627، مسلم، رقم:1609)
"کوئی پڑوسی اپنے پڑوسی کو دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے نہ روکے۔"
اگر کوئی پڑوسی کوئی چیز پکائے جب کہ وہ معاشی طور پر خوش حال ہے تو شریعت یہ کہتی ہے کہ وہ اپنے غریب پڑوسیوں کو فراموش نہ کرے اور اس بات کا خیال رکھے کہ اس کے غریب اور تنگ دست پڑوسیوں کو اس کے کھانے کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچے اور انہیں اپنی مفلسی اور قلاشی کا احساس نہ ہو۔اس لئے شریعت نے یہ کہا کہ جب تو ہنڈیا پکائے تو اس میں تھوڑا سا پانی زیادہ ڈال دے اور پڑوسیوں کو بھی تھوڑا سا سالن بھیج دے تاکہ اس کے بچے بھی اس کے اچھے سالن سے لطف اندوز ہوسکیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(يا ابا ذر!اذا طبخت مرقة فاكثر ماءها وتعاهد جيرانك)
" اے ابو ذر! جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ کرلو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔"
اور اس کی ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے خلیل(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے تاکید فرمائی کہ جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ کرلو،پھر اپنے پڑوسیوں کے گھر والوں کو دیکھو اور ان کی بھلائی کے ساتھ اس میں سے کچھ حصہ پہنچاؤ۔(مسلم، باب الوصیتہ بالجار والا حسان الیہ، رقم:2635)
اسلام نے پڑوسی کو یہاں تک کی اہمیت اور فوقیت دی کہ حق شفعہ میں پڑوسی کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: