کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 21
یہی وجہ ہے کہ مغربی حکومتوں نے جب چاہا انسانی حقوق کو نظرانداز کر دیا اور لوگوں پر ظالمانہ کاروائیاں کرنا شروع کر دیں۔ آج بھی ان کی تقلید میں ایشائی حکومتیں ایسا کرتی ہیں اور ایمرجنسی لگانا بھی اس کی ایک شکل ہے۔ موجودہ دور میں امریکہ نے بنیادی انسانی حقوق کو کمزور قوموں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا اور انہیں مسلسل دباؤ میں رکھ کر سیاسی اور معاشی اور اقتصادی فوائد حاصل کیے اور جب چاہا اپنے آپ کو بالاتر سمجھ کر ان حقوق کی بے دریغ پامالی کی۔ افغانستان، عراق اور فلسطین اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
انسانی بنیادی حقوق کے حصول کی یہ جدوجہد ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔
لیکن اس جدوجہد کے نتیجہ کے طور پر جمہوری فلسفہ کے تحت UNO نے بہت سے مثبت اور تحفظاتی حقوق کے متعلق قراردادیں پاس کیں اور بالآخر "عالمی منشور حقوق انسانی" وجود میں آیا جس میں وہ تمام حقوق سمو دئیے گئے جو مختلف یورپی ممالک کے دستوروں میں درج تھے۔ دسمبر 1948ء میں نسل کشی کے انسداد کے لیے ایک قرارداد اقوام متحدہ کی اسمبلی میں پاس کی گئی۔ 12 جنوری 1951ء کو اس قرارداد کا نفاذ ہوا۔ عالمی منشور کی قرار کے حق میں 48 ووٹ آئے جب کہ روس سمیت 8 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا۔ بالآخر دسمبر 1948ء کے منظور شدہ "عالمی منشور حقوق انسانی" کے دیباچہ میں یہ الفاظ مذکور ہیں:
"بنیادی انسانی حقوق" میں فرد انسانی کی عزت و اہمیت میں مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق میں اعتقاد کو موثق بنانے کے لیے۔"
عالمی انسانی حقوق کا یہ منشور ایک اعلان ہے معاہدہ نہیں ہے، لیکن اس سے چند باتیں یہ معلوم ہوتی ہیں کہ اول تو مغرب میں انسانی حقوق کے تصور کی تاریخ صرف چند صدیوں پر محیط ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس کے پیچھے کوئی سند نہیں ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے اسلام حقوق کا جو چارٹر پیش کیا ہے اس کی سند تو قرآن حکیم ہے جو دنیا میں اسلام کی طرف سے انسانی بنیادی حقوق کا منشور ہے اور جس کا خلاصہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اعلان فرمایا، وہ ان مغربی ممالک اور امریکہ سے قدیم بھی بہتر بھی۔ اور یہ منشور دنیا میں چودہ سو سال تک عملاً قائم بھی رہا اور اس کی بے مثل نظریں بھی