کتاب: پیغمبر اسلام اور بنیادی انسانی حقوق - صفحہ 19
ناآشنا تھیں۔ موجودہ دور کو حقوق کے شعور کا ارتقائی دور سمجھا جاتا ہے، اس میں بنیادی حقوق کی جدوجہد کا آغاز گیارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں ہوا جہاں 1037ء میں بادشاہ کا نریڈ ثانی (Corrad II)نے ایک منشور جاری کیا جس میں پارلیمنٹ کے اختیارات کو محدود کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ نے اپنے اختیارات کی توسیع کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔ آخر 1188ء میں بادشاہ الفانسونہم (Alfanso IX) سے حبس بے جا کا اصول منظور کرا لیا گیا۔ انگلستان میں بادشاہ جان (King John) نے 1215ء میں جو میگنا کارٹا جاری کیا، وہ دراصل اس کے امراء (Barons) کے دباؤ کا نتیجہ تھا۔ اس میں زیادہ تر امراء ہی کا مفاد ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اس قانون کی رو سے تحقیق جرم رو بروئے مجلس قضاء حبس بے جا کے خلاف دادرسی اور ٹیکس لگانے کے اختیارات انگلستان کے باشندوں کو حاصل تھے۔ لیکن اس میں صرف امراء کے مفادات کا تحفظ رکھا گیا تھا۔ ہنری مارش (Henry Marsh) کے مطابق ایک معاہدہ کی حیثیت بڑے بڑے جاگیرداروں کے ایک منشور کے سوا اس کی اور کوئی حیثیت نہ تھی۔ 1350ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے میگنا کارٹا کی توثیق کر کے قانونی چارہ جوئی کا قانون منظور کر لیا جس کی رو سے کسی شخص کو عدالتی کاروائی کے بغیر زمین سے بے دخل یا قید نہیں کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی اسے سزائے موت دی جا سکتی تھی۔
چودھویں صدی سے سولھویں صدی عیسوی تک قریباً پوری دنیا میں بادشاہت اور آمریت ہاوی تھی اس وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کے لیے کسی جدوجہد کو نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ لہٰذا انسانی حقوق کی آواز اٹھانے والی تحریکیں نیم مردہ ہو کر رہ گئیں۔ سترھویں صدی میں پھر انسانی حقوق کی طرف توجہ کی گئی اور 1679ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے حبس بے جا کا قانون منظور کر لیا۔ جس سے تمام شہریوں کو تحفظ فراہم ہوا اور 1689ء میں پھر قانون حقوق (Bill of Rights) منظور کیا جو برطانیہ کی دستوری تاریخ یک ایک اہم دستاویز سمجھی جاتی ہے اسی دور میں برطانوی اور فرانسیسی مصنفین نے نظریہ عمرانی کی وضاحتوں اور تشریحات پر کتابیں لکھیں جن پر فرد کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی، چنانچہ مشہور فرانسیسی مفکر اور دانشور روسیو (Rousseaue) نے