کتاب: پردہ - صفحہ 8
تھے۔ عورتیں چادریں وغیرہ اوڑھ کر مکمل پردہ کر کے گھر سے نکلا کرتی تھیں۔ غیر محرم مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول کا تصور تک ان میں نہ تھا۔ بحمداللہ مملکت سعودیہ کے اکثر شہروں میں آج بھی یہی صورت حال ہے۔ لیکن اس دور میں جبکہ کچھ لوگوں نے پردے کے متعلق نا مناسب انداز میں گفتگو شروع کر دی ہے، ان لوگوں کو دیکھ کر جو پردے کے قائل ہی نہیں یا کم از کم چہرے کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ شریعت مطہرہ کے اس حکم بالخصوص چہرہ ڈھانپنے کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ان کی طرف سے یہ سوال کی جانے لگا ہے کہ پردہ واجب ہے یا مستحب؟یہ شرعی حکم ہے یا اس معاملہ میں ماحول، عادات اور رسم و رواج کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے؟کیا ایسا تو نہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہ ہو کہ اس کے واجب یا مستحب ہونے کا حکم لگایا جا سکے؟
اس قسم کے شکوک و شبہات، غلط فہمیوں کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ دلائل مرتب کر دوں جو اس کا حکم واضح کرنے کے لیے مجھے میسر آئیں۔ اللہ عزوجل کی رحمت سے اُمید ہے کہ یہ رسالہ توضیح حق میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو خود بھی ہدایت یافتہ ہیں اور دوسروں کو بھی راہ راست کی طرف بلاتے ہیں۔ وہی لوگ حق کو جانتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بھی تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہر طریقے سے فضائل کی دعوت دی۔ رذائل اور برے اخلاق کو بیخ و بن سے اکھاڑ اور لوگوں کو ان رذائل سے بچنے کی ہر ممکن طریقے سے تلقین فرمائی۔