کتاب: پردہ - صفحہ 44
کے دلائل کو بلاوجہ کمزور اور ناقابل توجہ قرار دے۔ اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ اعتقاد رکھنے سے پہلے اس کے دلائل کا بغور جائزہ لینا چاہیے تاکہ اس کا عقیدہ دلیل کے تابع ہو نہ کہ دلیل اس کے عقیدے کے تابع، یعنی دلائل کا جائزہ لینے کے بعد عقیدہ بنائے نہ کہ عقیدہ قائم کر کے دلائل کی تلاش میں نکل کھڑا ہو۔ کیونکہ جو شخص دلائل دیکھنے سے پہلے عقیدہ بنا لیتا ہے وہ اپنے عقیدے کے مخالف دلائل کو عموماً رد کرتا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ان کی تحریفات کا مرتکب ہوتا ہے۔ عقیدہ قائم کر لینے کے بعد دلائل کی تلاش کے نقصانات ہمارے بلکہ سب کے مشاہدے میں ہیں کہ ایسا کرنے والا کس طرح ضعیف احادیث کو بتکلف صحیح قرار دیتا ہے یا نصوص سے ایسے معانی کشید کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے جو اس میں پائے نہیں جاتے، لیکن صرف اپنی بات کو ثابت و مدلل کرنے کے لیے یہ سب کچھ اسے کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً راقم نے ایک صاحب کا رسالہ "پردے کے عدم وجوب" کے موضوع پر پڑھا۔ اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جو سنن ابی داود میں ہے جس میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا باریک کپڑوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ "جب عورت سن بلوغت کو پہنچ جائے تو ان اعضاء کے سوا کچھ نظر نہیں آنا چاہیے اور ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا۔ " یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ حدیث متفق علیہ ہے، یعنی امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھما اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق کہاں؟ خود اسے روایت کرنے والے امام ابو داؤد نے اسے مرسل ہونے کے سبب معطل قرار دیا ہے اور اس کی سند میں