کتاب: پردہ - صفحہ 43
حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق عرض کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا:’’اصرف بصرك‘‘(صحیح مسلم، سنن ابی داؤد)
’’اپنی نگاہ دوسری طرف پھیر لو۔ ‘‘
رہی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث، تو اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ کس سال کا واقعہ ہے۔ یا تو وہ خاتون بوڑھی عورتوں میں سے ہو گی جنہیں نکاح سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، تو ایسی خواتین کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے اس سے دوسری عورتوں پر حجاب کا وجوب ختم نہیں ہو سکتا۔
یا پھر یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے کیونکہ سورۃ الاحزاب (جس میں پردے کے احکام ہیں) 5 ہجری یا 6 ہجری میں نازل ہوئی اور نماز عید 2 ہجری سے مشروع چلی آتی ہے۔
واضح رہے کہ اس مسئلہ میں تفصیل کے ساتھ کلام کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے میں عام لوگوں کے لیے شرعی حکم کا جاننا ضروری ہے اور بہت سے ایسے لوگ اس پر قلم اٹھا چکے ہیں جو بے پردگی کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اس مسئلے میں کماحقہٗ تحقیق کی نہ غور و فکر سے کام لیا، حالانکہ اہل تحقیق کی ذمہ داری ہے کہ عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھیں اور ضروری معلومات حاصل کیے بغیر ایسے مسائل میں گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔
محقق کا فرض ہے کہ مختلف دلائل کے درمیان منصف جج کی طرح عدل و انصاف کے ساتھ غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور حق کے مطابق فیصلہ کرے۔ کسی ایک جانب کی دلیل کے بغیر راجح قرار نہ دے بلکہ تمام زاویوں سے غور کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ایک نظریہ رکھتا ہو اور مبالغہ سے کام لے کر اس کے دلائل کو محکم اور مخالف