کتاب: پردہ - صفحہ 42
جواب یہ ہے کہ اس میں غیر محرم عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر سکوت نہیں فرمایا بلکہ اس کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا، اسی لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہونے والے مسائل میں سے یہ بھی ہے کہ’’غیر محرم عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ ‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی ذکر کیا ہے: ’’ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر محرم عورتوں کی طرف دیکھنا شرعاً ممنوع اور نگاہ نیچی کرنا واجب ہے۔ ‘‘قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’بعض کا خیال ہے کہ نظر نیچی رکھنا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ جب فتنے کا اندیشہ ہو۔ (اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو منع نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل، بعض روایات کے مطابق، کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا، زبانی منع کرنے سے کہیں زیادہ تاکید کا حامل ہے۔‘‘ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پردہ کرنے کا حکم کیوں نہیں دیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے کوئی اسے نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے۔ یہ بھی امکان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں اسے یہ حکم بھی دیا ہو۔ کیونکہ راوی کا اس بات کا ذکر نہ کرنا اس امر کی نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا۔ کسی بات کے نقل نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔