کتاب: پردہ - صفحہ 41
ہے جو بہرحال ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے ڈھانپنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس صورت میں ضروری ہے کہ ان دونوں اصحاب رضی اللہ عنھما کی تفسیر میں سے ایک کو دلائل کی رو سے ترجیح دی جائے اور جو قول راجح قرار پائے، اس پر عمل کیا جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث دو وجوہ کی بنا پر ضعیف ہے: 1. خالد بن دریک نے جس راوی کے واسطے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی ہے، اس کا ذکر نہیں کیا ہے، لہذا اس کی سند منقطع ہے جیسا کہ خود امام ابو داود نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ "خالد بن دریک نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے براہ راست نہیں سنا۔ "اس حدیث کے ضعیف ہونے کی یہی وجہ ابو حاتم رازی نے بھی بیان کی ہے۔ 2. اس حدیث کی سند میں سعید بن بشیر البصری نزیل دمشق نامی راوی ہے۔ ابن مہدی نے اسے ناقابل اعتماد سمجھ کر ترک کیا۔ امام احمد، ابن معین، ابن مدینی نسائی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساطین علم حدیث نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لہذا یہ حدیث ضعیف ہے اور متذکرہ صدر صحیح احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ علاوہ ازیں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کی عمر ہجرت کے وقت ستائیس سال تھی۔ یہ نا ممکن ہے کہ اس بڑی عمر میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر جائیں جن سے ان کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ بدن کے اوصاف ظاہر ہو رہے ہوں۔ بالفرض اگر حدیث صحیح بھی ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے اور پردہ واجب کرنے والی نصوص نے اس حکم کو بدل دیا ہے، لہذا وہ ان پر مقدم ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث سے استدلال کا