کتاب: پردہ - صفحہ 24
خوش ہیں اور اس نے ان کے لیے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے،یہ بڑی کامیابی ہیں‘‘۔
جن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا) تو ہمارے لیے کس طرح مستحسن ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔ خصوصاً جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:
﴿ وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاۗءَتْ مَصِيْرًا ١١٥ۧ]
’’اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ ( النساء، 4/115)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کا علم و فہم، اللہ ے بندوں کی خیر خواہی کا جذبہ اور دینی بصیرت تعارف کی محتاج نہیں، فرماتے ہیں:
’’ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انہیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کر دیتے۔‘‘
اور یہ اس زمانے میں ہوا جس کی فضیلت احادیث میں وارد ہے، یعنی عہد نبوی کے مقابلے میں عورتوں کی حالت اس حد تک بدل گئی کہ انہیں مساجد میں