کتاب: پردہ - صفحہ 22
یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہے کہ صحابیات میں چادر کے بغیر باہر نکلنے کا معمول نہ تھا بلکہ چادر پاس نہ ہونے کی صورت میں باہر نکلنے کو وہ ممکن ہی نہیں سمجھتی تھی۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز عید کے لیے عید گاہ جانے کا حکم دیا تو انہوں نے اس امر، یعنی چادر نہ ہونے کا عذر کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ یہ مشکل اس طرح حل ہو سکتی ہے کہ ایسی عورت کو کوئی دوسری مسلمان بہن اپنی چادر مستعار دے دے۔ گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں، حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد و عورت سب کو ہے۔ جب ایک ایسے کام کے لیے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لیے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے نہ ان ان کی کوئی ضرورت ہے، بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا، مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں۔ علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل با پردہ رہنا ضروری ہے۔( واللہ اعلم) (3) صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ : ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھاتے تو بعض عورتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز کے لئے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں نماز کے بعد وہ