کتاب: پردہ - صفحہ 14
اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔ اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔ چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھنے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔ (3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں، مثلاً بیرونی لباس، اسی لیے قرآن نے ﴿ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ﴾ "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، یوں نہیں فرمایا: ﴿الا ما اظهرن منها﴾ "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔ " (4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔ پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے، یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔ اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے