کتاب: نور القرآن - صفحہ 58
کرے مگر یہ کہ جسے اللہ خود سفارش کی اجازت عطا فرمائے اور اس سفارش کو پسند بھی کرے۔ وہ پاک ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ وہ ’’وحدہُ لاشریک‘‘ ہے۔ داتا، آقا، مشکل کشا، غوث، دستگیر کوئی نہیں بس اللہ تعالیٰ ہی تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کر سکتی۔
یہ عام فہم مگر اہم ترین باتیں جان لینے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات اور اختیارات میں کسی اور کو بھی شریک سمجھتا ہے، مثلاً: یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی سمیع و بصیر ہے یا یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی مطلقاً غیب کا علم رکھتا ہے یا یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی حقیقی وارث ہے یا یہ کہ اللہ کے سوا کوئی اور بھی شفا دے سکتا ہے یا حاجت روائی، مشکل کشائی کر سکتا ہے تو بلاشبہ ایسا شخص شرک کا مرتکب ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ اگر اللہ کے ساتھ اور بھی اس کے شریک ہوتے تو وہ ضرور عرش والے (اللہ) کی طرف راستہ ڈھونڈ نکالتے تاکہ کائنات میں جو اس کی حکومت ہے اس میں شریک ہو جائیں۔ اور قرآن مجید میں یہ عقلی دلیل بھی ہے کہ اگر اللہ کے سوا اور بھی بہت سے الٰہ اور معبود ہوتے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جاتا، مثلاً: ایک کہتا سورج مشرق سے نکلے جبکہ دوسرا اسے مغرب سے نکالنے کا حکم دیتا۔ کسی مخلوق کی مجبوری تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی بقائے نسل کے لیے اولاد پیدا کرے مگر خالقِ کائنات کا یہ Status ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ تو مخلوقات جیسی جملہ ضرورتوں سے قطعی بے نیاز ہے۔ تمام مخلوقات اللہ کی محتاج ہیں جبکہ وہ بے نیاز اور تمام عزت کا مالک ہے۔ جو لوگ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو خدا مانتے ہیں، انھیں علم ہونا چاہیے کہ یہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں، یعنی مخلوق ہیں کسی بھی چیز کے خالق نہیں ہیں، یہاں تک کہ مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے تو پھر یہ مالک و مختار کیسے ہو سکتے ہیں؟ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو پتھروں اور قبروں کو پوجتے ہیں تو ایسے لوگ یقینا اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اب وہ ہدایت پر نہیں آسکتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ سائنس کے موجودہ دور