کتاب: نور القرآن - صفحہ 57
1
توحید (اللہ پر ایمان)
عبادات ہوں یا ایمانیات ان سب کا محور ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’توحید‘‘۔ ظاہر ہے اگر عقیدئہ توحید ہی کامل نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ عقیدئہ توحید ناقص ہونے کی صورت میں انسان شرک کا ارتکاب کرے گا جو اس کے سب اعمال برباد کر ڈالے گا۔
لہٰذا اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ ہمارا معبود، حاجت روا اور کارساز صرف ایک اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے۔ آسمانوں اور زمین میں اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کا حقیقی خالق، مالک اور وارث وہی ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے، وہی موت دیتا ہے، وہی پالتا ہے، وہی ہنساتا ہے، وہی رُلاتا ہے۔ رزق، اولاد، شفا، خوشیاں اور غم سب اس کی طرف سے ہیں۔ کائنات کا ہر کام اسی کے حکم سے ہے۔ وہی ’’عالم الغیب‘‘ ہے۔ وہ ’’سمیع و بصیر‘‘ ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے اپنے عرش پر مستوی ہے، وہ (اپنے علم اور قدرت کے اعتبار سے) انسان کی شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ جو کچھ انسان کے دل میں ہے وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو انسان مستقبل میں کرے گا وہ بھی اُس کے علم میں ہے۔ وہ ازل تا ابد زندہ ہے۔نہ اسے اُونگھ آتی ہے، نہ نیند۔ وہ یکتا ہے، بے نیاز ہے، نہ والد ہے نہ مولود اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔ ہر متنفس کو مرنے کے بعد وہی زندہ کرے گا۔ وہ تو نور ہے، دنیا میں قیامت تک اسے کوئی انسان دیکھ نہیں سکتا مگر جنتیوں کو وہ اپنے دیدار کی سعادت عطا فرمائے گا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ تو کسی چیز کو بس حکم دیتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ اور وہ ’’ہو جاتی‘‘ ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش