کتاب: نور توحید - صفحہ 99
لات: ان کے لیے ستو گھول کر پلایا کرتا تھا۔ جب وہ مرگیا تو اس کی قبر پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔‘‘
ابو الجوزاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے؛ فرماتے ہیں:’’ وہ حجاج کے لیے ستو گھولا کرتا تھا۔‘‘
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے؛ فرماتے ہیں:
((لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَائِرَاتِ الْقُبُوْرِ وَ الْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْھَا الْمَسَاجِدَ وَ السُّرُجَ۔)) [1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے؛ اور ان پر بھی جو قبروں پر چراغ جلاتے ہیں۔‘‘[اسے اہل سنن نے روایت کیا ہے۔]۔
اس باب کے مسائل:
1۔ اس بحث سے اوثان یعنی بتوں کی تشریح ہوتی ہے۔
2۔ عبادت کا مفہوم واضح ہوتا ہے۔
[1] (سنن ابی داود، الجنائز،ح:3236 وجامع الترمذی، الصلاۃ، باب ما جا فی کراھیۃ ان یتخذ علی القبر مسجد، ح:320 وسنن النسائی، الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور، ح:2045)
قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور وہاں چراغاں کرنا منع ہے کیونکہ یہ ان کی تعظیم میں غلو اور حد سے تجاوز ہے۔ ماضی میں قبروں پر چراغ اور قندیلیں روشن کی جاتی تھیں۔ آج کل بڑے بڑے برقی قمقمے اور بلب جالائے جاتے ہیں۔ اس سے قبر کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے۔ قبروں پر ایسا کرنا ناجائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ایسا کرنے والے ملعون ہیں۔ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خواتین پر بھی لعنت کی ہے جو کثرت کے ساتھ قبروں کی زیارت کو جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا سہارا لے کر عورتوں کو قبرستان جانے کی رخصت دے دی ہے، تو اُنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کی قبر پر تشریف لے گئیں اور قبر پر کھڑی ہو کر کہنے لگیں: ’’(اے بھائی!) اگر میں تمہاری وفات کے وقت تمہارے پاس موجود ہوتی تو تمہاری قبر کی زیارت نہ کرتی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو اجازت دینے کی علت اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ ’’قبروں کی زیارت موت کی یاد دلاتی ہے، دل کو نرم کرتی ہے اور آنکھوں کو پر نم کرتی ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر عورت کے لئے یہ اجازت دے دی جائے تو وہ اپنی فطری کمزوری کے باعث جزع فزع اور بین کرنے سے باز نہیں رہ سکتی جس کا حرام ہونا سب کے نزدیک مُسلَّم ہے۔ اس طرح عورتوں کا قبروں کی زیارت کے لئے جانا گویا حرام کاموں میں مبتلا ہونے کا سبب بن سکتا تھا اور ظاہر ہے کہ کوئی ایسی حد مقرر نہیں کی جا سکتی جس کی بناء پر عورتیں جزع و فزع جیسے حرام کاموں سے بچ سکیں۔
محمد بن اسماعیل الصنعانی علیہ السلام اپنی مشہور تصنیف ’’تطہیر الاعتقاد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ: ’’یہ بڑے بڑے قبے (و مزار) اور میلے جو الحاد اور شرک میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں ان کو تعمیر کرنے والے بڑے بڑے بادشاہ، سلاطین، رؤسا اور والیان ریاست ہی تو تھے۔ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے قبے و مزار بنائے، یا ان لوگوں کی قبروں پر قبے و مزار تعمیر کئے جن کے متعلق یہ ملوک اور سلاطین حسن ظن رکھتے تھے۔ جیسے کوئی فاضل، یا عالم، یا صوفی، یا فقیر، یا کوئی بہت بڑا بزرگ۔ جو لوگ ان کو جانتے تھے وہ تو ان کی قبروں کی زیارت اس نیت سے کرتے تھے کہ ان کے لئے دعا اور استغفار کریں۔ یہ لوگ ان کے نام کی قطعاً دہائی نہ دیتے تھے اور نہ ان کو وسیلہ ہی خیال کرتے تھے۔ بلکہ ان کے لئے دعا کرتے اور بخشش مانگتے۔ لیکن ان اصحابِ قبور کو جاننے والے جب خود فوت ہو گئے تو بعد میں آنے والوں نے دیکھا کہ قبر پر ایک شاندار قبہ و مزار تعمیر ہے، جس پر چراغاں بھی ہوتا ہے اور نہایت قیمتی فرش بچھایا گیا ہے اور قبر پر اعلیٰ قسم کے کپڑے کے پردے لٹک رہے ہیں اور قبر کو ہاروں اور پھولوں سے خوب لادا اور سجایا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے سوچا کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ ان سے کوئی نفع حاصل کیا جائے یا کسی مصیبت سے نجات حاصل کی جائے۔ اور یہ ان قبروں کے مجاور اِن قبروں کے متعلق طرح طرح کے افسانے تراشتے ہیں۔