کتاب: نور توحید - صفحہ 98
باب: ان الغلو فی قبور الصالحین یصرھا اوثانا تعبد من دون اللّٰه
باب: بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو؛… [1]
(بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو؛ اور اُن کو بت بنا دیناحتی کہ اُن کی بھی پرستش ہونے لگتی ہے۔)
موطأ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثَنًا یُّعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰهِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ۔))[2]
’’ اے اللہ! میری قبر کو مورتی نہ بنانا کہ اس کی پوجا کی جائے؛ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا سخت غضب ہوا جنہوں نے اپنے انبیائے کرام علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا‘‘[3]
ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے سفیان بن منصور رحمۃ اللہ علیہ سے ؛ انہو ں نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے:
﴿اَفَرَئَیْتُمُ الْلّٰتَ وَ الْعُزّٰی0﴾ قَالَ: کَانَ یَلُتُّ لَھُمْ السَّوِیْقَ فَمَاتَ فَعَکَفُوْا عَلٰی قَبْرِہٖ۔))
’’بھلا تم نے کبھی لات اور عزی کے بارے میں بھی غور کیا ہے۔‘‘ فرمایا:
[1] صالحین کی قبروں کے بارے میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بارے میں جو حکم دیا گیا اور جن باتوں سے روکا گیا ہے، ان سے تجاوز کرنا۔ قبروں پر کتبے لگانا، انہیں خوب بلند بنانا، ان پر عمارتیں کھڑی کرنا، انہیں سجدہ گاہیں بنانا، قبر کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ سمجھنا،قبریا صاحب قبر کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی سمجھنا، قبریا صاحب قبر کے لیے نذر ماننا، اس کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا، یا قبر کی خاک کو سفارشی یا متبرک سمجھنا اور ان اعمال کو اللہ تعالیٰ کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ سمجھنا۔ یہ تمام باتیں غلو ہیں اور شرک اکبرکی اقسام ہیں۔
[2] (الموطا لامام مالک، الصلاۃ، باب جامع الصلا، ح:261 و المصنف لابن ابی شیبۃ:3/ 345)
[3] زیر بحث حدیث کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو پوجا جاتا تو وہ بہت بڑا وثن بن جاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کو اس طرح محفوظ فرمایا ہے کہ وہاں تک پہنچنا کسی بادشاہ کے اختیار میں بھی نہیں رہا۔ حدیث مذکورہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ وہ قبر، وثن کہلاتی ہے جسے قبروں کے پجاری اپنے ہاتھوں سے چومنا چاٹنا شروع کر دیں یا ان کے تابوتوں سے برکت حاصل کرنے کا ارادہ کریں۔ افسوس کہ آجکل قبروں کی تعظیم اور ان کی عبادت کا فتنہ اس قدر عام ہو گیا ہے کہ الامان والحفیظ۔
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اُس درخت کو جڑ سے کاٹ پھینکے کا حکم صادر کیا جس کے نیچے بیٹھ کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اس درخت کو اس لئے کاٹ دیا گیا کہ لوگوں نے وہاں جا کر اُس کے نیچے نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شرک کا فتنہ پھیلنے کے خدشے کی وجہ سے اس کو کٹوا دیا تھا۔