کتاب: نور توحید - صفحہ 96
آپ صلی اللہ علیہ وسلم موت و حیات کی کشمکش میں تھے کہ یہود و نصاریٰ اور اُس شخص پر جو قبروں میں مسجد بنا کر یا بغیر مسجد بنائے نماز پڑھے، لعنت فرمائی ہے‘‘[1] مذکورہ مفہوم اور اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے فرمان کہ ’’خَشِیَ اَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا‘‘ میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ ہم معنی اور ہم مطلب عبارات ہیں۔ اس لیے کہ: ’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے ارد گرد مسجد بنا لیں کیونکہ جس جگہ نماز پڑھنا مقصود ہو وہ مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں نماز پڑھی جائے اُسے مسجد ہی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ میری اُمت کے لئے رُوئے زمین کو پاک صاف اور مسجد قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِکُھُمُ السَّاعَۃُ وَ ھُمْ اَحْیَائُ۔ وَالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ۔))[2] ’’سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جن کی زندگی میں ان پر قیامت قائم ہوگی۔ اوروہ لوگ بھی بدترین ہیں جو قبروں کو مساجد(سجدہ گاہوں)کا درجہ دیں گے۔‘‘ اس باب کے مسائل 1۔ اس باب سے ثابت ہوا کہ کسی بزرگ کی قبر کے پاس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے مسجد تعمیر کرنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ اور اس کی مذمت فرمائی ہے اگرچہ مسجد بنانے والے کی نیت صحیح ہی ہو۔ 2۔ تصاویر و مجسمہ بنانے کی حرمت اور اس پر شدید و عید بھی ہے۔ 3۔ مذکورہ اعمال کے معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی بلیغ بیان سے عبرت حاصل ہوتی ہے کہ پہلے تو آپ نے اس کا م سے
[1] یہود و نصاریٰ کے اس فعل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انکار فرمایا ہے، اس کے دو سبب تھے: ۱۔ پہلا یہ کہ وہ انبیائے کرام کی قبروں کو تعظیمی سجدہ کیا کرتے تھے۔ ۲۔ دوسرا یہ کہ وہ انبیاء کی قبروں پر نماز پڑھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور حالت نماز میں ان انبیاء کی طرف خاص توجہ رکھتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ایک خاص درجہ حاصل ہو جائے گا۔ پہلی صورت شرکِ جلی کہلاتی ہے اور دوسری شرکِ خفی۔ اِسی بنا پر وہ لعنت کے مستحق ٹھہرائے گئے۔جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درجہ سخت تہدید، شدید وعید اور ان کو ملعون قرار دینے کے بعد ایک مسلمان کا قبروں کی تعظیم کرنا، اور ان پر قبے (ومزار) تعمیر کرنا، وہاں جا کر اور خصوصاً ان کو مرکز ِ توجہ ٹھہرا کر نماز پڑھنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟ یہ لوگ اگر ذرا بھی غور و فکر کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ براہِ راست اللہ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی اور جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ کی قسم یہی وہ دروازہ ہے جس سے یغوثؔ، یعوقؔ، نسرؔ اور اصنام پرستوں میں شیطان داخل ہوا اور قیامت تک یہی ہوتا رہے گا۔ پس مشرکین میں دو جُرم بیک وقت جمع ہو گئے: ایک صالحین کی شان میں غُلُوْ، اور دوسرا صالحین کے طریقے کی مخالفت۔ [2] ( ورواہ ابو حاتم فی صحیحہ ؛ مسند احمد:5316 و صحیح ابن خزیم، ح:789)