کتاب: نور توحید - صفحہ 95
((لَمَّا نُزِلَ بِرَسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیْصَۃً لَّہٗ عَلٰی وَجْھِہٖ فَاِذَا اغْتَمَّ بِھَا کَشَفَھَا فَقَالَ وَھُوَ کَذٰلِکَ:((لَعْنَۃُ اللّٰهِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَ النَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ۔)) یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوْا۔ وَلَوْ لَا ذٰلِکَ اُبْرِزَ قَبْرُہٗ غَیْرَ اَنَّہٗ خَشِیَ اَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا۔))[1]
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ شدت تکلیف سے اپنی چادر کبھی چہرئہ انور پر ڈال لیتے اور کبھی اسے ہٹا دیتے؛اس حالت میں فرماتے:’’ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو اُنہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘آپ فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کے اس کردار سے ڈرا رہے تھے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنائے جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی عام صحابہ کی قبروں کی طرح ظاہر ہوتی‘‘[2]
صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ:
((سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم قَبْلَ اَنْ یَّمُوْتَ بِخَمْسٍ وَ ھُوَ یَقُوْلُ:((اِنِّیْ اَبْرَاُ اِلَی اللّٰهِ اَنْ یَّکُوْنَ لِیْ مِنْکُمْ خَلِیْلٌ فَاِنَّ اللّٰهَ قَدِ اتَّخَذَنِیْ خَلِیْلًا وَ لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ اُمَّتِیْ خَلِیْلًا لَاتَّخَذْتُ اَبَا بَکْرٍ خَلِیْلًا۔ اَلَا وَ اِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ مِنْ قُبُوْرِ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِد۔ اَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ فَاِنِّیْ اَنْھَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ۔)) فَقَدْ نَھٰی عَنْہُ فِیْ اٰخِرِ حَیَاتِہٖ ثُمَّ اَنَّہٗ لَعَنَ وَ ھُوَ فِی السِّیَاقِ مَنْ فَعَلَہٗ وَ الصَّلٰوۃَ عِنْدَھَا مِنْ ذٰلِکَ وَ اِنْ لَّمْ یُبْنَ مَسْجِدٌ وَ ھُوَ مَعْنٰی قَوْلِھَا خَشِیَ اَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِدًا۔))[3]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ روز قبل یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں تم میں سے کسی کو اپنا خلیل نہیں بنا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے اور اگر میں اپنی اُمت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو(سیدنا) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو بناتا۔ غور سے سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے۔ خبردار! میں تم کو قبروں میں مساجد تعمیر کرنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘ اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری زندگی میں روکا تھا، پھر
[1] (صحیح البخاری، احادیث الانبیا، باب ما ذکر عن بنی اسرائیل، ح:3453، 1390 و صحیح مسلم، المساجد، باب النھی عن اتخاذ القبور مساجد، ح:529)
[2] اس بات سے آپ کا مقصود اپنی امت کو ایسے طرز عمل سے ڈرانا اور روکنا تھا۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنانے کا خدشہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر بھی عام مسلمانوں کی طرح ظاہرکھلی جگہ پر ہوتی۔اس سے اسلام کی بے چارگی کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جس عمل بد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا، اور اس کے کرنے والے کو ملعون قرار دیا، آج اسی عمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کی اکثریت گرفتار ہو چکی ہے۔
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے ذرائع شرک کے سدباب کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سلسلے میں انتہائی احتیاط سے کام لیا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی دیوار کو اتنا اونچا کر دیا کہ اس میں داخل ہونے کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ پھر اس کے ارد گرد چاردیواری تعمیر کی جس کی وجہ سے وہ ایک گھیرے میں آ گئی۔ بعد ازاں ان کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو قبلہ نہ بنا لیا جائے، کیونکہ وہ نمازوں کے سامنے پڑتی تھی اور ان کے متعلق یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ وہ عبادت کی صورت میں ، اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیں گے چنانچہ اس خطرے کے پیش نظر قبر کے جانب شمال میں دونوں طرف دیواریں اس انداز سے تعمیر کی گئیں کہ نمازوں کے سامنے آنا ممکن نہ رہا۔‘‘
[3] [ صحیح مسلم، باب النھی عن بنا المساجد علی القبور، ح:532]