کتاب: نور توحید - صفحہ 91
’’ میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں نصاریٰ نے مبالغہ کیا تھا۔ میں ایک بندہ ہوں، بس مجھے اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہو۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِیَّاکُمْ وَ الْغُلُوَّا فَاِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ۔))[1]
’’غلو سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے جتنے لوگ ہلاک ہوئے وہ سب غلو ہی کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔‘‘
صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا:((ھَلَکَ الْمُتنطِّعُوْنَ۔))[2]
’’ تکلف کرنے اور حد سے بڑھنے والے ہلاک ہو گئے۔‘‘
اس باب کے مسائل
1۔ جو شخص اس باب کو اور اس سے بعد والے دو ابواب کو اچھی طرح سمجھ لے اس پر اسلام کی اجنبیت واضح ہو جائیگی(یہ اجنبیت ہی ہے کہ بہت سے لوگ اسلام کی روح سے ناآشنا ہیں)اور دلوں کے پھیر نے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجیب کرشمے اس کے سامنے آئیں گے۔
2۔ زمین پر رونما ہونے والا اولین شرک صالحین کی شان میں غلو اور ان کی بہت زیادہ تعظیم و تکریم کے سبب ہوا۔
3۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے پہلی چیز جس کے ذریعہ انبیا کے دین میں تغیر ہوا وہ کیا تھی؟ اور اس کا سبب کیا تھا؟ جبکہ اس بات کا بھی علم تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی نے انہیں رسول بنا کر بھیجا ہے۔
4۔ بدعات کی مقبولیت کا سبب کیا ہے؟ جبکہ شریعت اور فطرت سلیمہ اس کو رد کرتی ہے۔
5۔ اس کا سبب، حق و باطل کو آپس میں خلط ملط کر دینا تھا۔ پہلی وجہ صالحین کی حد درجہ محبت تھی۔ دوسری وجہ یہ کہ بعض اہل علم اور اصحاب دین نے کچھ ایسے کام کیے جن میں ان کا ارادہ تو خیر ہی کا تھا مگر بعد والوں نے ان کا مقصد کچھ اور ہی سمجھ لیا۔
6۔ سورہ نوح کی آیت کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔
7۔ فطری طور پر انسان کے دل میں حق بتدریج کم ہوتا رہتا ہے جبکہ باطل بڑھتا رہتا ہے۔
[1] (سنن النسائی، المناسک، باب التقاط الحصی، ح:3059و سنن ابن ماجہ، المناسک، باب قدر حصی الرمی ، ح:3029)
[2] (صحیح مسلم، العلم، باب ہل المتنطِعون، ح:2670)]متنطع:سے وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے افعال و اقوال یاکسی بھی چیز میں اس قدر غلو اور تکلف کرتے ہیں ؛ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔ تنطع، اطراء اور غلوکے معانی قریب قریب ہیں۔صرف لفظ غلومیں یہ تمام معانی آجاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب لوگ بزرگان دین کے حق میں غلو یعنی ان کی عزت و تکریم میں حد سے تجاوز کرنے لگ جائیں تو وہ دین سے دور اور کفر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ قوم نوح نے صالحین کے حق میں غلو کیا اور ان کی قبروں پر مجاوربن کر بیٹھ گئے تو آخر کار انھی کی پوجا شروع کردی۔ اسی طرح عیسائیوں نے سید نا عیسی علیہ السلام ، ان کے حواریوں اور علماء کے حق میں غلو کیا، بالآخر انھیں معبود سمجھنے لگے۔اسی طرح اس امت میں بھی بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق الٰہی خصوصیات اور اختیارات کا عقیدہ رکھنے لگے ہیں ، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعینہ ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔