کتاب: نور توحید - صفحہ 90
اَنْصِبُوْا اِلٰی مَجَالِسِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا یْجْلِسُوْنَ فِیْھَا اَنْصَابًا وَ سَمُّوْھَا بِاَسْمَآئِھِمْ فَفَعَلُوْا وَ لَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ اُولٰٓئِکَ و نُسِیَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ)) ’’اورانہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ودؔ اور سواعؔ کو اور نہ یغوثؔ اور یعوقؔ اور نسرؔ کو) فرماتے ہیں: ’’ یہ سب قومِ نوح علیہ السلام کے صالح لوگ تھے، جب وہ مر گئے تو شیطان نے اُن کی قوم کو یہ بات سمجھائی کہ یہ نیک لوگ جس جگہ بیٹھتے تھے وہاں بطورِ یادگار پتھر نصب کرو اور اس پتھر کو اُن کے نام سے پکارو، سو اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب اگلے لوگ مر گئے اور علم اُن سے جاتا رہا تب اُن کی اولاد نے اُن یادگاروں کی پرستش شروع کر دی‘‘[1] علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ((قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ السَّلَفِ لَمَّا مَاتُوْا عَکَفُوْا عَلٰی قُبُوْرِھِمْ ثُمَّ صَوَّرُوْا تَمَاثِیْلَھُمْ ثُمَّ طَالَ عَلَیْھُمُ الْاَمَہُ فَعَبَدُوْھُمْ۔)) ’’ اکثر سلف صالحین نے بیان کیا ہے کہ جب وہ مر گئے تو پہلے یہ لوگ ان کی قبروں کے مجاور بنے، پھر ان کی تصاویر بنائیں، پھر زمانہ دراز گزرنے پر ان کی عبادت کرنے لگ گئے‘‘[2] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَااَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُہٗ۔))[3]
[1] ابلیس نے ان سے کہا کہ دیکھو! تمہارے آباؤ اجداد ان بزرگوں کی عبادت کرتے تھے اور ان کے طفیل بارش ہوتی تھی۔ اس نے ان اصنام کی عبادت کو ان کے سامنے انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا اور ان کی عظمت کا نقش اس طرح بڑھا چڑھا کر ان کے دلوں میں بٹھا دیا کہ وہ سمجھنے لگے کہ گویا وہی ان کے معبودِ حقیقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ﴿اَلَمْ اَعْہَدْ اِِلَیْکُمْ یَابَنِیْ آدَمَ اَنْ لاَ تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (60) وَاَنْ اعْبُدُوْنِی ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ (61)وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًا اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ ﴾: ’’اولادِ آدم! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرو یہ سیدھا راستہ ہے مگر اس کے باوجود اُس نے تم میں سے ایک گروہِ کثیر کو گمراہ کر دیا۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (سورئہ یٰسین)۔ اللہ تعالیٰ کے اس عہد و پیمان کو یاد رکھنے کا اصل فائدہ یہ ہے کہ انسان غلو سے محفوظ رہتا ہے۔ شیطان نے صالحین کی شان میں افراط و مبالغہ اور ان سے غلو فی المحبت کی بنا پر ہی ان لوگوں کو مبتلائے شرک کیا تھا۔ جیسا کہ آج کل اُمت محمدی میں سے اکثر لوگ شرک کا شکار ہو گئے ہیں۔ [2] قبروں کے پجاریوں کے دل میں شیطان ہمیشہ یہ وسوسہ ڈالتا رہا کہ دیکھو! انبیائے کرام اور صلحائے عظام کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا اور ان پر قبے تعمیر کرنا ان اہل قبور سے محبت و عقیدت کا مظہر ہے اور یہ کہ ان کی قبروں کے پاس آ کر دعا کرنا قبولیت دعا کا ذریعہ ہے۔ یہ بات ان کے دل میں اچھی طرح گھر کر گئی تو پھر یہ وسوسہ ڈالا کہ: دیکھو! اگر ان کے نام کو وسیلہ ٹھہرا کر دعا کرو گے اور ان کے نام کی قسم دے کر ملتجی ہو گے تو دعا بہت جلد قبول ہو گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان تو اس سے کہیں بلند ہے کہ ان بتوں کا نام لے کر اس کی قسم کھائی جائے یا کسی مخلوق کے ساتھ اس سے سوال کیا جائے۔ جب یہ بات اچھی طرح ان کے ذہن میں بیٹھ گئی تو یہ وسوسہ ڈالا کہ ان کو براہِ راست پکارو، ان کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھو، ان کی قبروں پر چادریں چڑھاؤ، اور خوب چراغاں کرو۔ اگر ان کی قبروں کا طواف کیا جائے، ان کو بوسہ دیا جائے اور ان پر جانور ذبح کئے جائیں تو یہ بہت ہی نیکی اور سعادتمندی کی بات ہے۔ جب یہ چیز اِن کے ذہن میں راسخ ہو گئی تو کہا: دیکھو! لوگوں کو بھی ان بزرگانِ کرام کی عبادت کی طرف بلاؤ۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان کے عُرس منانے کا اہتمام کرو، اور ان کے یومِ پیدائش مناؤ۔ مشرکین نے جب دیکھا تو انہوں نے اس فعل کو انتہائی نفع بخش سودا سمجھا۔ دنیا میں بھی مالا مال ہو گئے اور آخرت میں بھی اپنے آپ ہی کو نجات یافتہ قرار دیا۔جیسا کہ آج کل بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ [3] [ (واذکر فی الکتاب مریم)ح:3445 ، واصلہ عند مسلم فی الصحیح ، ح:1691]