کتاب: نور توحید - صفحہ 89
[صالحین کی شان میں غلو ؛ گمراہی کی اصل بنیاد] باب: ما جاء ان سبب کفر بنی آدم وترکھم دینھم ھو الغلو فی الصالحین باب: بنی آدم کے کفر اور ترک ِدِین کا سبب بزرگوں کی شان میں غلو کرنا ہے[1] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿یٰٓــاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰهِ اِلَّا الْحَقّ﴾(النساء: ۱۷۱) ’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو‘‘[2] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ﴿وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًا﴾(نوح:۲۳) [[ھٰذِہٖ اَسْمَآئُ رِجَالٍ صَالِحِیْنَ مِنْ قَوْمِ نُوْحٍ فَلَمَّا ھَلَکُوْا اَوْحَی الشَّیْطٰنُ اِلٰی قَوْمِھِمْ اَن
[1] اس امت میں بھی اور سابقہ امتوں میں بھی شرک کا سب سے بڑا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں غلو اور حد سے تجاوز کرجانا ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ غلو کا معنی ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ یعنی بنی آدم کے کفر اور اللہ کے مقرر کردہ دین کو ترک کرنے کا سبب صالحین کی عزت و تکریم میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کرجانا ہے۔ صالحین میں انبیاء و رسل اور اولیاء کے علاوہ وہ تمام لوگ شامل ہیں جو نیکی اور اخلاص کی صفات سے متصف ہوں۔ وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں یا متوسط درجہ کے ، اللہ کے ہاں ان کے درجات ہیں۔اللہ تعالیٰ کی خاطر صالحین سے محبت رکھنے ، ان کی تکریم کرنے اور نیکی اور دین و علم کی باتوں میں ان کی اقتداء کرنا مطلوب ہے۔ صالحین کے احترام، ان سے محبت و دوستی ، ان کے دفاع اور ان کی مدد کی حد وہی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ان کی تعظیم میں غلو کی ایک صورت یہ ہے کہ ان میں بعض الٰہی خصوصیات کا عقیدہ رکھا جائے یا یہ اعتقاد ہو کہ وہ لوح و قلم کے اسرار سے واقف ہیں ؛یا بعض امور کائنات پر تصرف رکھتے ہیں۔ [2] اصل میں یہ خطاب اگرچہ یہود و نصاریٰ سے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پوری اُمت محمدیہ سے بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ خدشہ ہے کہ یہ اُمت بھی کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی سلوک نہ کر لے جو نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اور یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلاَ یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ﴾(الحدید:۱۶)’’کیا ایمان لانے والوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دِل اللہ کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے اور آج اُن میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں ‘‘؟۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں مبالغہ سے کام لیا۔‘‘[بخاری]