کتاب: نور توحید - صفحہ 87
تمہارے لئے یہی کلمہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور دلیل پیش کروں گا۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے ’’کیا عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑ دو گے‘‘؟۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باربار کلمہ شہادت کی ترغیب دیتے تھے اور وہ دونوں ابوطالب کو اپنے مذہب پر قائم رہنے پر اصرار کرتے تھے۔ ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ: ’’وہ عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم رہے گا۔‘‘ اور اُس نے لَا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰه کے اقرار سے اِنکار کر دیا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا: ’’ جب تک مجھے روک نہ دیا گیا میں تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا‘‘۔ اس پر اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں چاہے وہ رِشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ اور رب ذوالجلال نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی: ’’ اے نبی! تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ‘‘[1] اس باب کے مسائل: 1۔ اس باب میں آیت کریمہ﴿اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ﴾کی تفسیر ہے۔ 2۔ آیت کریمہ:﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ ’’نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقینا وہ جہنمی ہیں۔‘‘کی تفسیر اور شان نزول بھی بیان ہوا ہے۔ 3۔ ایک بڑا اور اہم مسئلہ کہ کلمہ توحید لا ِلہ ِلا اللّٰه کا زبان سے اقرار ضروری ہے۔ اس میں علم کے ان دعوے داروں کی تردید ہے جو محض دلی معرفت کو کافی سمجھتے ہیں۔ 4۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا سے لا ِلہ ِلا اللّٰه پڑھنے کو کہا تو ابوجہل اور اس کے ساتھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس
[1] رحمۃ للعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو کلمہ توحید کا اقرار کرنے کی ترغیب دی لیکن ابوطالب نے انکار کر دیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ علم و یقین کے ساتھ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ شرک اور مشرکین سے کلیۃً اظہارِ براء ت کی جائے۔ اور تمام عبادات پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کی جائیں اور اسلام کے دائرہ میں داخل ہوا جائے۔یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے کیونکہ اگر ابوطالب خلوص دل سے اور ان تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو نفی و اثبات کی صورت میں لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ سے وابستہ ہیں یہ کلمہ پڑھ لیتا تو وہ لازماً اس کے لئے سود مند ثابت ہوتا۔ ابوطالب کے ہدایت یاب نہ ہونے میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، ان میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ: لوگوں کو اس بات کا علم و یقین ہو جائے کہ کسی کو ہدایت دینا یا نہ دینا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، اس کے سوا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے۔حسب کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقتًا اپنے چچا کے حق میں مغفرت کی دعا کی بھی، لیکن کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا نے آپ کے چچا کو کوئی فائدہ پہنچایا؟ نہیں! کیونکہ وہ مشرک تھا۔ مشرک کے حق میں استغفار اور شفاعت قطعا مفید نہیں۔پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی مشرک کے گناہوں کی معافی میں اسے کچھ نفع دے سکیں۔ یاکوئی شخص اگر شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کرے تو آپ اس کی پریشانی کو دور کرکے یا بھلائی پہنچا کر اس کے کچھ کام آسکیں۔