کتاب: نور توحید - صفحہ 85
اپنی خواہشات اور حاجات کی تکمیل اور اپنی قوتوں کے نفاذ میں اس کی بارگاہ کے فقیر اور نیاز مند ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس بدگمانی پر رد کیا ہے ؛ اور یہ واضح کیا ہے کہ ہر قسم کی شفاعت و سفارش صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جیسے تمام جہانوں کی بادشاہی صرف اسی کو سزا وار ہے۔ اور یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی بارگاہ میں کوئی بھی کسی کی بھی سفارش نہیں کرسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ صرف اسی کے لیے سفارش کی اجازت دیں گے جس کے قول اور عمل سے وہ راضی ہوں۔ اور اللہ کی رضامندی خالص عمل اور توحید کے بغیر ممکن نہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ شفاعت میں مشرک کا کوئی حصہ یا نصیب نہیں ہے۔
اور یہ بھی واضح کردیا ہے کہ: مثبت شفاعت بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی ہوگی۔ اوریہ صرف اہل اخلاص موحدین کے لیے ہوگی ؛ جو کہ اس کی طرف سے سراسر رحمت اور شفاعت کرنے والے کی کرامت ہے۔ اوراس کی رحمت اور ذریعہ معافی ہے مشفوع کے لیے۔ یہ شفاعت حقیقت میں مقام محمود ہے۔ وہ مقام جس کی اجازت صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہو گی۔
اس عقیدہ کی تفصیل پر کتاب و سنت کے دلائل موجود ہیں۔ اس موقع پر مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے امام تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ کا کلام نقل کیا ہے جوکہ اس بحث میں کافی و شافی ہے۔ پس یہاں پر مقصود یہ ہے کہ: وہ دلائل ذکر کئے جائیں جو ہر اس وسیلہ اور سبب کے باطل ہونے پر دلالت کرتے ہیں جو مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں سے جوڑے ہوئے ہیں۔
اوریہ کہ ان معبودوں کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ نہ ہی ذاتی طور پر ؛ اور نہ ہی کسی دوسرے کی معاونت سے اور نہ ہی غلبہ کے طور پر۔ اور نہ ہی انہیں سفارش کرنے پر کوئی زور حاصل ہے۔ بلکہ یہ تمام امور صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کے اختیار میں ہیں۔تو یہ بات متعین ہوگئی کہ معبود برحق بھی صرف وہی ایک ہی ہستی ہے۔[1]
[1] الغرض قرآن و سنت سے شفاعت کی دوقسمیں ثابت ہیں: (الف) شفاعت منفیہ(غیر مقبولہ)(ب) شفاعت مثبتہ(مقبولہ)
منفی شفاعت(غیر مقبول)وہ ہے جس کی اللہ عزوجل نے مشرکین کے حق میں نفی کی ہے، جیسا کہ سورہ انعام کی آیت(۵۱) میں ہے۔
(2) شفاعت مثبتہ(مقبولہ): جس کی اہل توحید کے سوا تمام کے حق میں نفی کی گئی ہے۔اہل توحید کے حق میں شفاعت قبول ہونے کی چند شرائط ہیں:
(الف) شفاعت کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کی اجازت۔
(ب) شفاعت کرنے والے اور جس کے حق میں سفارش کی جائے، دونوں کے لیے اللہ کی رضا اور خوشنودی۔ گویا اصل سفارشی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے سوا کوئی اور نہیں۔ اس لیے مصنف رحمہ اللہ نے اس کے بعد دوسری آیت قل لِلہِ الشفاع جمِیعابیان کی ہے۔
(3) یعنی ہر قسم کی شفاعت (سفارش)اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ درحقیقت اہل ایمان اور غیر اہل ایمان ، سب کا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار یا سفارشی نہیں ، بلکہ شفاعت اللہ عزوجل کی اجازت اور رضا مندی ہی سے ہوگی۔
شفاعت کی مذکورہ بالا شروط سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ مخلوق کے ساتھ حصول شفاعت کی غرض سے تعلق قائم کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کے ہاں اسے اس قدر مقام و متبہ حاصل ہے کہ یہ ازخود شفاعت کا اختیار رکھتا ہے، قطعا درست نہیں۔ یہی اعتقاد مشرکین کا اپنے معبودان باطلہ کے بارے میں ہوتا ہے کہ وہ لازما ان کی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو رد بھی نہیں کرے گا۔
نوٹ: قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یقینا شفاعت کریں گے لیکن ہم اس شفاعت کے حصول کی درخواست کس سے کریں ؟ صرف اللہ وحدہ سے اور یوں دعا کریں کہ یا اللہ! ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما کیونکہ اللہ رب العزت ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو توفیق بخشے گا اور آپ کے دل میں الہام کرے گا کہ فلاں فلاں کے حق میں شفاعت کریں اور یہ شفاعت انھی لوگوں کے حق میں ہوگی جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حصول کی دعا کی ہوگی۔