کتاب: نور توحید - صفحہ 82
میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اس کا مدد گار ہے۔ اور نہ سفارش اس کے ہاں نفع دیتی ہے مگر جس کے لیے وہ اجازت دے‘‘[1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ((نَفَی اللّٰهُ عَمَّا سِوَاہُ کُلَّ مَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ۔ فَنَفٰی اَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِہٖ مِلْکٌ اَوْ قِسْطٌ مِّنْہُ اَوْ یَکُوْنَ عَوْنًا لِّلّٰہِ۔ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا الشَّفَاعَۃُ فَبَیَّنَ اَنَّھَا لَا تَنْفَعُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّبُ کَمَا قَالَ:﴿وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لَمِنِ ارْتَضٰی﴾ فَھٰذِہِ الشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ یَظُنُّھَا الْمُشْرِکُوْنَ ھِیَ مُنْتَفِیَۃٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَمَا نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ۔وَ اَخْبَرَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَنَّہٗ یَاْتِیْ فَیَسْجُدُ لِرَبِّہٖ وَ یَحْمَدُہٗ لَا یَبْدَاُ بِالشَّفَاعَۃِ اَوَّلًا ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ:((اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ قُلْ یُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَ وَ اشْفِعْ تُشَفَّعْ)) ’’ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کی دی جن سے مشرکین سند پکڑتے ہیں اور خصوصاً اس بات کی نفی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو آسمان و زمین میں کسی قسم کی قدرت ہو یا قدرت کا کچھ حصہ یا وہ اللہ کی کچھ مدد کرتے ہوں۔ باقی رہی سفارش، تو یہ بھی اُسے نفع دے گی جس کے بارے میں ربِّ کریم اجازت عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا: ’’وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو۔‘‘(الانبیاء:۲۸)۔ البتہ قیامت کے دن وہ شفاعت جس کے مشرکین قائل ہیں اُن کے حق میں نہ ہو سکے گی، کیونکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کے ساتھ غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’ وہ قیامت کے دن اپنے رب تعالیٰ کے حضور پیش
[1] اللہ تعالیٰ نے ان تمام اسباب اور ذرائع کو کالعدم قرار دے دیا ہے جن کو کسی نہ کسی صورت میں مشرکین عقیدئہ سفارش کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔مشرک غیر اللہ کو اس لئے معبود بناتا ہے کہ اُسے اس سے کوئی فائدہ اور نفع حاصل ہو لیکن جب تک کسی میں مندرجہ ذیل چھ صفات نہ پائی جائیں اس وقت تک اُس سے نفع کی توقع عبث ہے: ۱۔ اسے نفع اور فائدہ پہنچانے پر قدرت یا ملکیت اور اختیار ہو۔ ۲۔ ملکیت حاصل نہ ہو تو شریک ملکیت ہو۔ ۳۔ شرکت بھی میسر نہ ہو تو مالک کا معین و مددگار ہو۔ ۴۔ اگر مددگار بھی نہیں تو کم از کم مالک کے ہاں اس کی یہ حیثیت تو مُسَلَّم ہو کہ اس کی سفارش کے اس کے مانی جاتی ہے۔ ۵۔ اُس کے پاس ایسی ہی سلطنت و ملکیت ہو۔ ۶۔ طاقت و قوت میں اُس سے بڑھ کر ہو۔ پس ایک عقلمند، اور صاحب بصیرت شخص کے لئے اس آیت میں ہدایت اور دلائل کی دولت موجود ہے اور توحید الٰہی سمجھنے کے لئے شمع نور ہویدا ہے۔اب مردوں سے اپنی حاجات طلب کرنا اور اُن سے استغاثہ اور فریاد کرنا دنیا میں سب سے بڑا شرک ہے۔ اس لئے کہ انسان کے مرنے کے بعد جب کوئی خود اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں رہتا تو وہ دوسرے کی فریاد سن کر کیا جواب دے گا؟ اب تو دوسروں کی شفاعت اس کے لئے ممکن ہی نہیں رہی۔ شفاعت طلب کرنے والا اور جس کو شفاعت کنندہ سمجھ لیا گیا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برابر ہیں۔بلکہ زندہ انسان کی شفاعت مردہ کے حق میں اللہ کے ہاں زیادہ مقبول ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ زندہ لوگ مرنے والے کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں ؛ اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ؛ خواہ مرنے والا نیک اور ولی ہو یا شہید یا عام مسلمان۔ یہ سب اللہ کی بارگاہ میں اس مردہ کے حق میں سفارش ہی تو ہے کہ اللہ پاک اس کی مغفرت کردے؛ اور اس کا معاملہ آسان کردے۔ جہاں تک اگلے جہاں میں کسی کی سفارش کا تعلق ہے؛ تو یہ امور بھی آخرت سے متعلق ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کرنا تو درکنار اونچی آواز سے بول بھی نہیں سکتا۔ اور سب سے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے استغاثہ، فریاد رسی اور سوال کرنے کو اپنا رضا کا سبب اور ذریعہ بھی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو عدم اجازت اور شرک سے تعبیر فرمایا ہے اور اپنے غضب اور قہر کا باعث ٹھہرایا ہے۔ معبودِ حقیقی کے ساتھ شرک اُس کے دین خالص میں تغییر و تبدیلی، اہل توحید سے عداوت اور دشمنی یہ سب عیب مشرکین نے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے۔ آمین