کتاب: نور توحید - صفحہ 81
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾[البقرۃ ۲۵۵] ’’کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ ‘‘[1] نیز ارشاد گرامی ہے: ﴿وَ کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَائُ وَ یَرْضٰی﴾[النجم ۲۶] ’’آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں، جن کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اِس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اُس کو پسند کرے‘‘[2] اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّ مَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍ٭ وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ﴾ [سبأ ۲۲۔۲۳] ’’فرما دیجیے: پکارو ان کو جنھیں تم نے اللہ کے سوا گمان کر رکھا ہے، وہ نہ آسمانوں میں ذرہ برابر کے مالک ہیں اور نہ زمین
[1] اس سے پتہ چلا کہ جب کسی شخص میں دو شرطیں پائی جائیں گی تو وہ سفارش کر سکے گا: ۱۔ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو۔ ۲۔ جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔ [2] علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’جب مقرب اور برگزیدہ فرشتوں کا یہ علم ہے کہ وہ بھی بارگاہِ قدس میں دم نہیں مار سکتے تو یہ جاہل اور احمق لوگ غیر اللہ اور معبودانِ باطل سے کس طرح توقع اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں ؟ جن کی عبادت کا اللہ تعالیٰ نے نہ شریعت میں کوئی حکم فرمایا اور نہ اجازت دی۔ بلکہ اس کے برعکس تمام انبیائے کرام کے ذریعہ سے اس کی تردید اور ممانعت فرمائی، اور اپنی نازل کردہ کتب میں اس کی نفی کی‘‘ـ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کر دی جن سے مشرکین استدلال کیا کرتے تھے۔ مثلا اس نے اس بات کی نفی کی ہے کہ کسی کو زمین و آسمان میں کسی قسم کی قدرت ، کلی یا جزوی اختیارات ہوں ، یا کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون اور مدد گار ہو، البتہ سفارش ہو سکتی ہے۔ مگر وہ بھی صرف اسی کے لیے مفید ہوگی جس کے حق میں سفارش کی اجازت خود اللہ تعالیٰ دے گا جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:(ولا یشفعون ِإلا لِمنِ ارتضی) (انبیا ء 28 )’’اور وہ سفارش نہیں کر سکیں گے بجز اس کے لیے جس سے اللہ راضی ہو۔‘‘ پس وہ سفارش جس کے مشرکین قائل ہیں قیامت کے دن معدوم ہوگی جیسا کہ قرآن مجید نے اس کی نفی اور انکار کیا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ:آپ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو کر فورا سفارش کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوں گے اور اس کی حمد و ثنا کریں گے۔ اس کے بعد آپ سے کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائیں اور بات کریں ، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ سوال کریں ، آپ جو مانگیں گے آپ کو دیا جائے گا: آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )ٰسب سے زیادہ خوش نصیب کون ہے جو آپ کی سفارش کا حق دار ہو گا؟ آپ نے فرمایا: جس نے خلوص دل سے کلم توحید لا ِلہ ِلا اللہ کا اقرار کیا۔ یعنی یہ سفارش اللہ تعالیٰ کی اجازت سے صرف خلوص دل سے کلمہ پڑھنے والوں کو حاصل ہوگی اور مشرکین کے حق میں سفارش کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ پس جس شفاعت کا قرآن نے انکار کیا ہے اس سے وہ شفاعت مراد ہے جس میں اللہ کے ساتھ شرک ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی اجازت سے شفاعت کا اثبات کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف صاف فرمایا ہے کہ شفاعت صرف اہل توحید اور اہل اخلاص کے لیے ہوگی۔