کتاب: نور توحید - صفحہ 79
معبود بنائے جانے کا مستحق نہیں ہوسکتا۔اس کے سوا جو بھی ہیں ؛ انہیں یہ حق حاصل نہیں۔ جیسے کمال مطلق؛ کبریائی اور عظمت ِجمال وجلال کی تعریفات مطلق طور پر ساری کی ساری صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی دوسرے میں یہ صفات پائی جائیں۔ ایسے ہی ظاہری او رباطنی عبودیت صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کا خاص حق ہے؛ جس میں کسی بھی طرح کوئی دوسرا اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے۔ [1]
[1] اس باب میں جن آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کی وضاحت اور توضیح کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ وہ عظیم بادشاہ ہیں جس کے کلام کو سن کر فرشتے خوف و دہشت سے غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور تمام مخلوقات اس سے گھبراتی اور کانپتی ہیں اور وہ ذاتِ اقدس ہے جو اپنی صفات، اپنے علم، اپنی قدرت، اپنی بادشاہت، اپنی عظمت و شرف اور بے نیازی میں تمام مخلوقات سے کامل و اکمل ہے اور ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور اس کے فیصلے، اس کا تصرف اور اس کی تقدیر مخلوقات میں نافذ اور جاری و ساری ہیں کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے۔ پس ایسی باکمال ذاتِ کبریا کے ساتھ کسی کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرانا شرعاً یا عقلاً کسی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ جو خود پرورش یافتہ ہو، اُسے پرورش کنندہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اور جو خود عابد ہو، اُسے معبود کیونکر مانا جا سکتا ہے؟ ان کی عقلیں کہاں چلی گئی ہیں اور ان کی قوتِ فہم کیوں سلب ہو گئی ہے؟ تعجب ہے کہ یہ موٹی موٹی باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ؟ سبحان اﷲ عما یشرکون۔ اللہ تعالیٰ تو صاف اور کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں:﴿اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا(۹۳)لَقَدْ اَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّا(۹۴)وَ کُلَّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا(۹۵) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶)﴾’’ تمام شخص جو زمین و آسمان میں ہیں ، سب اللہ کے رُوبرو غلامانہ حیثیت سے آئیں گے اُس نے ان کو گھیر رکھا اور شمار کر رکھا ہے اور سب قیامت کے دِن ان کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔ (مریم:۹۳تا۹۵)۔
پس بلا استثناء جب تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی غلام اور عبید ہے تو بغیر کسی دلیل و حجت کے ایک دوسرے کی عبادت کیوں کرتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی رائے کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور اختراعات اور من گھڑت اُمور میں مبتلا ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اوّل سے آخر تک تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو صرف اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کریں اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے منع کریں ، اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی اطاعت میں ایسا ہی کیا۔
سب سے اہم مسئلہ جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس خالق کائنات کے علاوہ کون ہے جس کی عبادت کی جائے، جس سے دُعا کی جائے، جس سے ڈرا اور خوف کھایا جائے اور کون ہے جس پر بھروسہ کیا جائے اور اُس سے اُمیدیں وابستہ کی جائیں اور ان عبادات کے علاوہ دوسری عبادات میں اللہ کے سوا کون مستحق ہے؟ فرشتوں کی حالت اور ان کے خوف و دہشت پر ایک نظر ڈالیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کس قدر لرزہ براندام ہیں۔ ان کی حالت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:﴿بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ(۲۶)لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَ ھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ(۲۷)یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ مَا خَلْفَھُمْ وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ(۲۸)وَ مَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَھَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ﴾(الانبیاء: ۲۶ تا ۲۹) ’’بلکہ وہ (فرشتے) اُس کے صاحب عزت بندے ہیں۔ اسکے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور اسی کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں جو کچھ ان سے پہلے ہو چکا اور جو کچھ اب ہو گا وہ سب سے آگاہ اور واقف ہے اور وہ کسی کی سفارش نہیں کر سکتے مگر اُس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو اور وہ اُس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جو بھی ان میں سے یہ کہے کہ اللہ کے بعد میں بھی معبود ہوں تو اسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘