کتاب: نور توحید - صفحہ 77
وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ۔))[1] ’’اللہ تعالیٰ جب کسی بات کی وحی کا ارادہ فرماتے ہیں اور اس وحی کا تکلم فرماتے ہیں تو اس کے خوف سے تمام آسمانوں پر دہشت اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جب آسمان والے اس آواز کو سنتے ہیں تو بے ہوش ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے جبریل علیہ السلام سراٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحی میں سے جو چاہتے ہیں ان سے کلام فرماتے ہیں۔ پھر جبریل علیہ السلام ملائکہ کے پاس سے گزرتے ہیں۔ جب بھی کسی آسمان سے ان کا گزر ہوتا ہے تو اس آسمان کے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں:اے جبریل علیہ السلام!ہمارے رب نے کیا فرمایا ہے؟توجبریل علیہ السلام کہتے ہیں: اس نے حق فرمایا۔ وہ عالی مقام اور بزرگ و برتر ہے۔ پھر تمام فرشتے یہی بات دہراتے ہیں۔ پھر جبریل علیہ السلام اس وحی کو جہاں اللہ عزوجل کا حکم ہوتا ہے، وہاں پہنچا دیتے ہیں۔‘‘ اس باب کے مسائل: 1۔ اس تفصیل سے سورہ سباء کی آیت کی تفسیر معلوم ہوئی۔ 2۔ اس میں ابطال شرک کی دلیل ہے، بالخصوص ایسے شرک کی جس کا تعلق صالحین امت سے ہے۔ اس آیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ آیت، دلوں میں سے شجر شرک کی جڑوں کو کاٹ پھینکتی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿قَالُوا الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ﴾ کی تفسیر بھی معلوم ہوئی۔ 4۔ فرشتوں کے سوال کی وجہ اور سبب بھی مذکور ہے۔ 5۔ فرشتوں کے سوال پر جبریل علیہ السلام انہیں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ 6۔ جب سب فرشتے بے ہوش ہو جاتے ہیں تو سب سے پہلے جبریل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں۔ 7۔ چونکہ ہر آسمان کے فرشتے جبریل علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں، اس لیے وہ سب کو جواب دیتے ہیں۔ 8۔ یہ بے ہوشی اور غشی تمام آسمانوں کے فرشتوں پر طاری ہوتی ہے۔ 9۔ اللہ تعالیٰ کے کلام سے آسمان لرز جاتے ہیں۔ 10۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل علیہ السلام ہی اللہ تعالیٰ کی وحی کو منزل مقصود پر پہنچاتے ہیں۔ 11۔ شیاطین چوری چھپے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔
[1] (اخرجہ ابن کثیر فی التفسیر:6 /503و ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید، ح:206) مزید سمجھنے کے لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو مرفوع روایت نقل کی ہے اس پر غور کیجئے تو بات صاف ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’فرشتے بادلوں میں نازل ہوتے ہیں اور جو فیصلہ آسمان میں ہوتا ہے اُس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آواز کو شیاطین چوری چھپے سن لیتے ہیں اور کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث منکرین نطق (یعنی اللہ تعالیٰ کو بولنے والا نہ ماننے والوں ) پر اہل سنت کی طرف سے دلیل اور برہانِ قاطع ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَمْ یَزَلِ اللّٰهُ مُتَکَلِّمًا اِذَا شَآئَ ’’اللہ تعالیٰ ازل سے صفت ِ کلام سے متصف رہے ہیں ، وہ جب چاہیں تکلم فرماتے ہیں۔