کتاب: نور توحید - صفحہ 76
اُن کے دلوں سے دور ہو تی ہے توپوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا حکم دیا ہے؟ توکہتے ہیں: حق ہی فرمایا ہے۔ اور وہ عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔‘‘ چنانچہ اس کلامِ ربانی کو شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صف بصف زمین سے آسمان تک اوپر تلے سننے پر آمادہ رہتے ہیں۔(راوئ حدیث) سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ نے شیاطین کے صف بصف اوپر تلے ہونے کی حالت کو اپنا ہاتھ ٹیڑھا کر کے اور اُنگلیوں میں فاصلہ دے کر بتایا کہ اس طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سب سے اُوپر والا شیطان کوئی بات سنتا ہے تو وہ اپنے سے نیچے والے کو بتاتا ہے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو بتاتا ہے یہاں تک کہ وہ ساحر یا کاہن کو بتا دیتا ہے۔ پس کبھی کاہن کو بتانے سے پہلے ہی شہاب اُس کو جلا دیتا ہے اور کبھی بات بتانے کے بعد اس پر آ کر گرتا ہے۔ پس شیطان ایک بات کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے۔ اگر کوئی بات سچ ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں روز فلاں کاہن نے یوں ہی نہ کہا تھا چنانچہ صرف ایک سچی بات جو آسمان سے سنی گئی تھی، کی وجہ سے کاہن کو سمجھا جاتا ہے‘‘[1]
حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِذَا اَرَادَ اللّٰهُ تَعَالٰی اَنْ یُّوْحِیَ بِالْاَمْرِ تَکَلَّمَ بِالْوَحْیِ اَخَذَتِ السَّمٰوٰتُ مِنْہُ رَجْفَۃً اَوْ قَالَ رَعْدَۃً خَوْفًا مِّنَ اللّٰهِ تَعَالٰی فَاِذَا سَمِعَ ذٰلِکَ اَھْلُ السَّمٰوٰت صُعِقُوْا وَ خَرُّوْا ِللّٰهِ سُجَّدًا فَیَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یَّرْفَعُ رَاْسَہٗ جِبْرِیْلُ فَیُکَلِمُہُ اللّٰهُ مِنْ وَحْیِہٖ بِمَا اَرَادَ ثُمَّ یَمُرُّ جِبْرِیْلُ عَلَی الْمَلَائِکَۃِ کُلَّمَا مَرَّ بِسَمَآئٍ سَاَلَہٗ مَلَائِکَتُھَا مَا ذَا قَالَ رُبُّنَا یَا جِبْرِیْلُ فَیَقُوْلُ جِبْرِیْلُ قَالَ الْحَقَّ
[1] یعنی جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتے ہیں تو فرشتے حکم برداری میں یوں اپنے پر مارتے ہیں گویا صاف پتھر پر نرم زنجیر ٹکرانے کی جھنکار ہو اور وہ فرمان ان فرشتوں تک پہنچ جاتا ہے۔ حتی کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں:تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ تو (اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے)کہتے ہیں کہ اس نے جو کہا وہ برحق ہے۔ اور وہ عالی مقام اوربزرگ و برتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس بات کو شیاطین چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں۔
شیاطین ایک دوسرے کے اوپر یوں سوار ہوجاتے ہیں۔ سب سے اوپر والا شیطان جب کوئی بات سن لیتا ہے تو وہ اپنے سے نیچے والے کو بتادیتا ہے اور وہ آگے اپنے سے نیچے والے کو۔ حتی کہ آخری (سب سے نیچے والا)شیطان وہ بات ساحر یا کاہن کو بتا دیتا ہے۔ کبھی تو کاہن تک وہ بات پہنچنے سے قبل ہی شعلہ(شہاب ثاقب)اس شیطان کو جلا دیتا ہے اور کبھی شعلے کے آنے تک شیطان اسے بات بتا چکا ہوتا ہے اور کاہن شیطان کی طرف سے سنی ہوئی بات کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔اگر کوئی بات اس کی بتائی ہوئی بات کے مطابق ہوجائے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا فلاں روز فلاں ساحر یا کاہن نے ایسے ہی نہیں کہا تھا؟ چنانچہ اس کی صرف اس ایک بات کے سچے ہونے سے اس کا ہن یا ساحر کو سچا سمجھ لیا جاتا ہے جو اس نے آسمان سے سنی ہوتی ہے۔
مزید سمجھنے کے لئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو مرفوع روایت نقل کی ہے اس پر غور کیجئے تو بات صاف ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (ترجمہ) ’’فرشتے بادلوں میں نازل ہوتے ہیں اور جو فیصلہ آسمان میں ہوتا ہے اُس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آواز کو شیاطین چوری چھپے سن لیتے ہیں اور کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں۔‘‘
شہاب سے مراد وہ ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جو شیاطین پر پھینکا جاتا ہے یعنی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ شہاب سننے والے شیطان کو جلا دیتا ہے۔ پتہ چلا کہ اگر کسی کی باتوں میں ایک آدھ بات سچی اور صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی سب کی سب باتیں سچی ہوں گی۔ کیونکہ گمراہ اور بدعتی لوگوں کا شیوہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک بات صحیح اور اس کے ساتھ کئی جھوٹی، غلط اور بے بنیاد باتیں ملا کر عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ صحیح بات صرف اس لئے کہتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کی جھوٹی باتوں کے فریب میں پھنس جائیں۔