کتاب: نور توحید - صفحہ 73
اس باب کی شرح: [1] ﴿اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ﴾[الاعراف ۱۹۱۔۱۹۲] ’’ کیا وہ اُن کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔‘‘ یہاں سے توحید کے دلائل و براہین کے بیان کا آغاز ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اتنے زیادہ عقلی اور نقلی دلائل ہیں کہ اتنے دلائل کسی دوسری چیز کے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے گزر چکا کہ دونوں اقسام کی توحید یعنی توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات اس کے بڑے عظیم الشان اور وسیع ترین دلائل میں سے ہیں۔ پس وہ ذات جو پیدا کرنے میں ؛ تدبیر کرنے میں اکیلی ہے؛ وہ ہر لحاظ سے تمام صفات میں کمال مطلق رکھتی ہے؛ اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کا مستحق ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ایسے ہی توحید کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ ان مخلوقات کے اوصاف کی معرفت حاصل کی جائے جن کی بندگی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ بنائے گئے تمام معبود خواہ وہ فرشتے ہوں ؛ یا بشر؛ شجر ہوں یا حجر ؛ وہ تمام کے تمام اللہ کی بارگاہ کے محتاج اور نیاز مند ہیں۔ سبھی عاجز ہیں ؛ وہ کسی کو رائی کے دانے برابر بھی نفع دینے کے مالک نہیں ؛ اور نہ ہی کسی چیز کو پیدا کرسکتے ہیں ؛ بلکہ وہ خود مخلوق ہیں ؛ کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ؛ اور نہ ہی زندگی اور موت یا دوبارہ اٹھائے جانے پر کوئی اختیار رکھتے ہیں۔ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی تمام تر مخلوق کے خالق حقیقی ہیں۔ وہی ہر چیز کو روزی دیتے ہیں ؛ اور تمام امور کی تدبیر کرتے ہیں۔ وہی نفع و نقصان دیتے ہیں ؛ وہی عطیات سے نوازتے ہیں ؛ اور ان سے اپنی عنایت کو روکتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے۔ اور ہر چیز نے ان ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ہر ایک چیز اسی کا قصد کرتی ہے؛ اور اس کے سامنے سر نگوں ہوتی ہے۔ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؛ جو اللہ تعالیٰ نے کئی بار اپنی کتاب میں بیان کی ہے؛ اور اسے کھول کر واضح کیا ہے۔ اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی اسے بیان کیا ہے۔ یہ عقلی اور فطرتی دلیل ہے۔ ایسے اس دلیل کا شمار سمعی اور عقلی دلائل میں بھی ہوتا ہے جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توحید بجا لانا واجب ہے؛ اور بیشک حق ذات صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے؛
[1] سابقہ ابواب کے بعد اس باب کا لانا حسن سیاق، فقہی عظمت اور رسوخ فی العلم کی دلیل ہے۔ :﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾ اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی چیز کا اختیار نہیں تو پھریہ اختیار صرف ایک اللہ کا ہی ہے۔ اورجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی ہوگئی تو پھر آپ سے کم تردرجہ والوں کی توبالاولی نفی ہوئی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے منہ موڑ کر اصحاب قبور، صالحین یا انبیا و اولیا کی طرف رجوع کرتے ہیں ، ان کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ بھی صاحب قوت و اختیار ہیں۔ اور کچھ امور کے وہ بھی مالک ہیں۔ رزق بھی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر واسطہ اور سفارش کا حق رکھتے ہیں۔ ایسی سب باتیں غلط ہیں کیونکہ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کے پروردہ اور اس کی مخلوق ہیں۔ وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ قرآن کریم میں بے شمار دلائل سے ثابت ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے ؛دوسرا کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن ملائکہ، انبیا، رسل اور فوت شدہ صالحین یا جنات کو پکارتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی کھجور کی گٹھلی کے چھلکے تک کا بھی مالک نہیں تو یہ لوگ انھیں کیوں پکارتے اور ان سے حاجات کیوں طلب کرتے ہیں ؟ انھیں چاہئے کہ اپنے تمام امور میں صرف اسی کو پکاریں جو ان تمام امور کا مالک اور تصرف کرنے والاہے۔