کتاب: نور توحید - صفحہ 71
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ اُحد میں زخمی کر دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دو دانت شہید کر دیئے گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی قوم کیسے کامیاب ہو گی جس نے اپنے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا ہے؟ اس پر آیت نازل ہوئی کہ ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) فیصلہ کے اِختیارات میں آپ کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘
صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں(جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے کھڑے ہوئے تو: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَاا وَ لَکَ الْحَمْدکے بعد یہ فرماتے ہوئے سنا:
((اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَّ فُلَانًا))
’’اے اللہ! فلاں اور فلاں شخص پر لعنت فرما۔‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾[4069، 4559 و مسند احمد:2 / 145]
’’(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم!) اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں۔‘‘
ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام پر بددعا کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی:
﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾(صحیح البخاری، المغازی، باب لیس لک مِن الأمرِ ح:4070)
’’(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم!) اس معاملے میں آپ کو کچھ بھی اختیار نہیں ‘‘[1]
صحیح بخاری ہی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں:
((قَامَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم حِیْنَ اَنْزِلَ عَلَیْہِ:﴿وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ﴾ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اَوْ کَلِمۃً نَحْوَھَا! اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا۔ یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا۔ یَا صَفِیَّۃَ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰهِ! لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا۔ وَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّد!ٍ سَلِیْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا۔))[2]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو بچاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔[3] اے عباس بن عبدالمطلب!میں آپ کو کچھ کام نہیں آؤں گا؛ اے پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا! میں آپ
[1] ان احادیث سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی بادشاہت میں سے کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے تھے اور آپ نے اس بات کی تبلیغ کی اور صاف صاف بیان بھی کردیا تو پھر آپ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے جسے یہ اختیار حاصل ہو؟ چنانچہ ملائکہ ، انبیا اور اولیا و صالحین سے تو بالاولی اس بات کی نفی ہوگئی۔ لہذا غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی تمام تر صورتیں باطل ہیں اور یہ ضروری ہے کہ عبادت اور عبادت کی تمام انواع یعنی دعا، استغاثہ؛ فریاد، استعاذہ[پناہ مانگنا]، ذبح اور نذر کا سزاوار صرف اور صرف ایک اللہ کو ٹھہرایا جائے ، اس کے علاوہ کسی کو نہیں۔
[2] (صحیح البخاری، الوصایا،باب ھل یدخل النسا والولد فی الارقاب، ح:2753 و مسند احمد:2 / 360)
[3] یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی کچھ نفع نہیں دے سکتے تھے۔ ہاں اللہ کا پیغام انہیں ضرور پہنچایا اور اللہ کی طرف سے سونپی گئی عظیم امانت رسالت و نبوت کا حق اداکیا۔رہی بات اللہ کے عذاب ، سزا اور عقوبت سے بچانے کی؛ تو یاد رہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو اپنی بادشاہت میں کچھ اختیار نہیں دیا۔ وہ سلطنت و قدرت میں تنہا اور کمال ، جمال اور جلال میں یکتا ہے۔