کتاب: نور توحید - صفحہ 70
باب: اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا باب: کیا وہ اُنہیں شریک بناتے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ 0وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّ لَا ھُمْ اَنْفُسَھُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾[الاعراف ۱۹۱۔۱۹۲] ’’ کیا وہ اُن کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کوئی بھی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ خود پیدا کئے گئے ہیں، جو نہ اِن کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی آپ اپنی مدد پر قادر ہیں۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَائَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ﴾(فاطر ۱۳۔۱۴) ’’اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے بھی مالک بھی نہیں ہیں۔ اگرانہیں پکارو تو وہ تمہاری دُعائیں سن نہیں سکتے؛ اوراگر سن لیں تو ان کا جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا‘‘[1] صحیحین میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: ((شُجَّ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَوْمَ اُحُدٍ وَکُسِرَتْ رَبَاعِیَّتُہٗ ؛ فقال: کیف یفلِح قوم شجوا نبِیِہِم ؟ فنزلت﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ﴾[آل عمران: 128] [2]
[1] اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن ملائکہ، انبیا، رسل اور فوت شدہ صالحین یا جنات کو پکارتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی کھجور کی گٹھلی کے چھلکے تک کا بھی مالک نہیں تو یہ لوگ انھیں کیوں پکارتے اور ان سے حاجات کیوں طلب کرتے ہیں ؟ انھیں چاہئے کہ اپنے تمام امور میں صرف اسی کو پکاریں جو ان تمام امور کا مالک اور تصرف کرنے والاہے۔ [2] [صحیح مسلم، الجھاد، باب غزو احد، ح:1791 و مسند احمد:3 /99 ،178)]