کتاب: نور توحید - صفحہ 67
نجات دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکلات میں وہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کوہی پکارتے ہیں۔ [1] 18۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل طور پر گلشن توحید کی حفاظت فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ رکھا۔
[1] سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے تھے، مثلاً عیسیٰ علیہ السلام ، ملائکہ اور اصنام وغیرہ کو، تو ان کا یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا کہ یہ کسی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں یا بارش برساتے ہیں یا انگور وغیرہ اُگاتے ہیں ، بلکہ وہ یا تو ان کی عبادت کرتے تھے یا ان کی قبروں کو پوجتے تھے یا ان کی تصویروں کے سامنے جھکتے تھے اور یہ کیوں کرتے تھے ؟ قرآن مجید اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے[کہ مشرکین کہتے ہیں ]:﴿مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی اللّٰہِ زُلْفَی﴾’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرادیں۔‘‘ (الزمر۔۳)۔اور دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾(یونس۔۱۸)۔ ’ وہ ایسے غیر اللہ کی پوجا کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان دے سکتے ہیں اور نہ ہی نفع ؛ اور کہتے ہیں: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے صرف سفارشی ہیں۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرما کر لوگوں کو اس بات سے روکا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ پکارا کریں ، نہ دعائے عبادت کی صورت میں اور نہ دعائے استغاثہ کے انداز میں۔‘‘شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان کسی بھی غیر اللہ کو وسیلہ بنائے، ان پر بھروسہ کرے، ان کو پکارے اور ان سے سوال کرے وہ شخص بالاجماع کافر ہے۔‘‘ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: ’’شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اس کی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں۔‘‘ احناف کی مشہور کتا ب ’’فتاویٰ البزازیہ‘‘میں لکھا ہے کہ: ’’جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں ، وہ کافر ہو جاتا ہے۔ شیخ صنع اللہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ:’’دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت و تصرف حاصل ہے اورسختیوں اور مشکلات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروں پر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں ، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں۔‘‘ شیخ صنع اللہ رحمۃ اللہ علیہ ، مزید فر ماتے ہیں کہ: ’’یہ وہ عقیدہ ہے جس میں نہ صرف افراط وتفریط ہی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں ہلا کت ِ ابدی اور عذابِ سر مدی بھی ہے کیونکہ اس میں خالص شرک کی بو آتی ہے جو کتابُ اللہ کے صحیح اور واضح احکام کے صریح خلاف ہے،تمام ائمہ کرام کے عقائد سے متصادم ہے اور اجتماعِ اُمت کے خلاف ہے قرآنِ کریم کہتا ہے کہ:﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرُّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ ت مَصِیْرًا﴾ (النساء۔۱۱۵)’’جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے؛ جبکہ اِس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اسی طرح چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے۔‘‘اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:﴿اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۶۴)قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبَعَثُوْنَ(۶۵)﴾(النمل۔۶۴۔۶۵) ’’اور کون ہے جو خلق کی ابتداء کرتا اور پھر اسکا اعادہ کرتا ہے اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتاہے ؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جو ان کاموں میں حصہ دار ہے۔ لائو اپنی دلیل اگر تم سچے ہو؟ ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے‘‘ یہ تمام آیاتِ قرآنی اس بات پر دلائل کناں ہیں کہ صرف اللہ تعا لیٰ ہی کو اپنی مخلوق کے لئے تدبیر، تصرف اور تقدیر کا اختیار حاصل[حاشیہ جاری ہے ]