کتاب: نور توحید - صفحہ 65
لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ﴾(العنکبوت: ۷ا)۔ ’’تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کوپوجتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔ بلاشبہ اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو تمھارے کسی رزق کے مالک نہیں ہیں، سو تم اللہ کے ہاں ہی رزق تلاش کرو اورا س کی عبادت کرو اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تم لوٹائے جائو گے‘‘[1] مزید ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَ ھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ 0 وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ 0﴾(الاحقاف:۵ تا ۶)۔ ’’آخر اس سے بڑا گمراہ اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے بھی بے خبر ہیں۔ اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے‘‘[2] نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَائَ الْاَرْضِ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ﴾(النمل:۶۲) ’’کون ہے جو بے قرار کی دعاء سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون تکلیف رفع کرتا ہے اور تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی(یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو‘‘[3] اور امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند سے بیان کیا ہے؛ آپ فرماتے ہیں کہ: ((اَنَّہٗ کَانَ فِیْ زَمَنَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُنَافِقٌ یُوْذِی الْمُوْمِنِیْنَ فَقاَل بَعْضُھُمْ: قُوْمُوْا بِنَا نَسْتَغِیْثُ
[1] اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم صرف اللہ ہی سے رزق طلب کرو۔ اس طلب کو اللہ ہی کے ساتھ خاص رکھو ، طلب رزق کے لیے غیر اللہ سے فریاد نہ کرو۔ رزق کا لفظ عام ہے۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ملے اور عطا ہو؛ اسے رزق کہا جاتا ہے۔اس میں صحت، عافیت اور مال و دولت سب کچھ شامل ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے واعبدوہ[اور اس کی بندگی کرو]فرمایا تاکہ بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح کا پکارنا اس میں شامل ہوجائے۔ [2] اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی گمراہی کی انتہا بیان کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کو مردوں کو پکارتے ہیں اس سے بتوں ، پتھروں یا درختوں کو پکارنا مراد نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ﴾ ’’ِجو قیامت تک[اس کی پکار سن کر]اسے جواب نہیں دے سکتے اور یہ اشیاء تو قیامت کے بعد بھی سننے پر قادر نہیں جبکہ مردے قیامت کے بعد اٹھ کر سننے لگیں گے۔‘‘ نیز اس کی دوسری دلیل یہ ہے کہ آیت میں ’’ مَنْ‘‘ حرف موصول ہے۔ اس کا اطلاق ذوی العقول پر ہوتا ہے جو دوسروں سے بات کرسکتے ہوں اور ان سے بات کی جاسکتی ہو۔ وہ خود علم رکھتے ہوں اور ان سے علم حاصل کیا جاسکتاہو۔اسی لیے اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابنِ جریر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ: ’’مِنْ دُونِ اللہ سے انسان، فرشتے اور جن مراد ہیں جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں جیسے سیدنا عیسٰی علیہ السلام ، عزیر علیہ السلام اور فرشتے وغیرہ۔‘‘ [3] اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بے کس اور لاچار آدمی کی دعا جو کہ بطور سوال ہوتی ہے۔صرف اللہ عزوجل سنتا ہے اور پھر کبھی تو انسان کی فریاد پر تکلیف دور کرتا ہے اور کبھی بغیر فریاد کیے:﴿أإ ِلہ مع اللہ ﴾’’ تو بھلا اللہ کے ساتھ اور بھی کوئی معبود ہے؟‘‘ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں جسے پکارا جائے یا جو چیز صرف اللہ کے اختیار میں ہو اس کی فریاد اس[غیر اللہ]سے کی جائے۔