کتاب: نور توحید - صفحہ 64
باب: مِّنَ ا لشِّرْکِ اَنْ یَّسْتَغِیْثَ بِغَیْرِ اللّٰہِ اَوْ یَدْعُوَ غَیْرہٗ باب: غیر اللہ کو پکارنا یا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے[1] اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لَاتَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَ لاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ0 وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ھُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّّحِیْمُ﴾۔(یونس:۱۰۶۔۱۰۷) ’’اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی ایسے کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ دے سکے اور نہ نقصان؛ اگر ایسا کیا تو ظالموں میں سے ہو گا۔اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی اسے ٹال نہیں سکتا؛او راگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرلے تو اس کے فضل کوروکنے والا کوئی نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ در گزر کرنے والا اور رحم فر مانے والا ہے۔‘‘ نیز ارشاد الٰہی ہے: ﴿اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْکًا اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ
[1] اگرچہ استغاثہ[فریادکرنا]دعا ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کو بالخصوص علیحدہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ استغاثہ کا معنی فریاد کرنا ہے۔ جو شخص شدید دکھ اور پریشانی میں اس قدر مبتلا ہو کہ اسے سخت نقصان پہنچنے یا اس کے ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس کی فریاد رسی کو غوث کہا جاتا ہے۔ لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی فریاد رسی کی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے مدد کرتے ہوئے اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلایا جس میں وہ جکڑا ہوا تھا۔ چنانچہ جب مخلوق سے کسی ایسے کام کی فریاد کی جائے جو اس کے بس میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ کے بس اور اس کی قدرت میں ہو تو یہ فریاد کرنا شرک اکبر ہوگا۔ ہاں اگر مخلوق کے بس میں ہو تو جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے قصہ میں کہا ہے:﴿فاستغاثہ الذِی مِن شِیعتِہِ عل الذِی مِن عدوِہِ﴾[القصص 28:]۔۔جو شخص موسی علیہ السلام کی قوم سے تھا اس نے ان سے اپنے دشمن کے خلاف فریاد کی۔‘‘ بعض علماء نے استغاثہ اور دُعا میں فرق کیا ہے۔ استغاثہ میں شرط یہ ہے کہ مستغیث کسی مصیبت میں مبتلا ہو؛ جبکہ دُعا عام ہے، کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا نہ ہو، دُعا ہر وقت مانگی جا سکتی ہے۔دعاء کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ دعائے عبادت۔ ۲۔دعائے مسئلہ۔ قرآنِ کریم میں یہ دو نوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں اور بعض اوقات بیک وقت دونوں مقصود ہوتی ہیں۔ دعائے مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی تکلیف اور مشکل سے نجات کا طلبگار ہو یا کسی منافع کا خواہشمندہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جو اللہ کے علاوہ ایسے افرادسے طالب ِدعا ہو جو کسی نفع یا نقصان کے قطًا مجاز نہیں ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں فر مایا گیا ہے۔