کتاب: نور توحید - صفحہ 62
باب: مِنَ الشِّرکِ الاسْتِعَاذَۃ بِغَیر اللّٰه
باب: غیر اللہ کی پناہ طلب کرنا شرک ہے[1]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَدُوْھُمْ رَھَقًا﴾(الجن:۶)
’’انسانوں کے کچھ لوگ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ مانگتے تھے پس انہوں نے ان کو مزید سرکش بنادیا‘‘[2]
حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
((سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ:((مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًافَقَالَ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّا تِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ)) لَمْ یَضُرَّہٗ شَیْئٌ حَتّٰی یَرْحَلَ مِنْ مَّنْزِلِہٖ ذٰلِکَ۔))[3]
[1] غیر اللہ کی پناہ مانگنا شرک اکبر ہے۔استعاذہ کا معنی پناہ مانگناہے۔ درحقیقت استعاذہ سے مراد پناہ لینے کی دعا کرنا ہے۔ اور جب یہ دعا ہے تو عبادت بھی ہے اور ہر قسم کی عبادت کا سزاوار صرف اللہ عزوجل ہے۔ اہل اسلام کے ہاں بالا تفاق استعاذہ، اللہ رب العزت کے سوا کسی دوسرے سے درست نہیں ہے۔اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو چیز مخلوق کے بس میں ہے ؛ اس میں مخلوق سے پناہ مانگنا جائز ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوق سے پناہ، محض زبانی طور پر مانگی جاتی ہے، دلی اطمینان اور لگاؤ اللہ عزوجل ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ حسن ظن ہوتا ہے کہ یہ بندہ تو محض ایک سبب ہے، درحقیقت پناہ دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔لہذا جب ظاہری طور پر مخلوق سے پناہ مانگی جائے اور دلی رجحان اور توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو تو پھر مخلوق سے پناہ مانگنا جائز ہوگا۔ اسی لیے اہل خرافات کا یہ قول باطل ہے کہ مردوں ، جنات،اولیائے کرام اور دیگر مخلوق سے ان چیزوں کی پناہ مانگنا جائز ہے جو ان کی قدرت اور طاقت میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں پناہ دینے کی قدرت بھی دے رکھی ہے۔
جنات سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنی کوئی ضرورت پوری کرا لے یا اپنا کوئی حکم منوا لے، یا کسی نا معلوم اور مقام بعید کی خبر حاصل کر لے وغیرہ وغیرہ۔ اور جنات کے انسانوں سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان سے اپنی تعظیم کرا لے، یا اس کو استعاذہ پر مجبور کر دے یا اپنے سامنے اس کو کسی کام کے لیے مجبور کر دے وغیرہ۔ ’’اس استعاذہ سے اگر کوئی دنیوی فائدہ حاصل ہو بھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ شرک ہی رہے گا۔‘‘
[2] یہاں رہقاکا معنی یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اس قدر خوف و اضطراب پیدا ہو گیا کہ وہ[جنات]ان پر ظلم و زیادتی کرنے لگے۔ ظلم جسم پر بھی ہوتا ہے اور روح پر بھی۔ گویا ان پر جنات کا یہ ظلم بطور سزا تھا اور سزا کسی گناہ پر ہی ہوتی ہے[تو معلوم ہوا کہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا گناہ ہے]
آیت مبارکہ میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہوئی ہے اور یہ مذمت صرف اس لیے ہے کہ انہوں نیاس عبادت کا حقدار غیر اللہ کو ٹھہرایا جبکہ اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگی جائے۔ امام قتادہ رحمہ اللہ اور بعض دیگر اسلاف کا قول یہ ہے کہ رہقاکا معنی گناہ ہے اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا باعث گناہ ہے۔تعظیم کرا لے، یا اس کو استعاذہ پر مجبور کر دے یا اپنے سامنے اس کو کسی کام کے لیے مجبور کر دے وغیرہ۔ ’’اس استعاذہ سے اگر کوئی دنیوی فائدہ حاصل ہو بھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ شرک ہی رہے گا۔‘‘
[3] (مسلم، الذکر و الدعا،… ح:2708 وجامع الترمذی، الدعوات باب ماجا مایقول اذا نزل… ح:3437)